السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآن مجید نے متعین کیا ہے کہ شوہر اپنی بیوی سے زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک دور رہ سکتا ہے۔ مگر میرا یہاں ایک کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہے اور مجھے چھٹی بھی سال بعد ملتی ہے بلکہ کام کی نوعیت سے اس مدت میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے، تو اس بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سائل کا یہ کہنا کہ قرآن مجید نے شوہر کے لیے اپنی بیوی سے دور رہنے کی زیادہ سے زیادہ مدت چار ماہ مقرر کی ہے، غلط ہے یہ بات قرآن مجید میں نہیں ہے۔ یہ تجدید ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنی بیویوں سے ایلاء کر لیں۔ یعنی جو شوہر یہ قسم اٹھا لے کہ وہ اپنی بیوی کے پاس نہیں جائے گا، تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے چار ماہ مقرر کیے ہیں۔ فرمایا:
﴿لَّذينَ يُؤلونَ مِن نِسائِهِم تَرَبُّصُ أَربَعَةِ أَشهُرٍ ...﴿٢٢٦﴾... سورة البقرة
’’جو لوگ اپنی بیویوں کے پاس جانے سے قسم اٹھا لیں، ان کے لیے انتظار ہے چار ماہ کا۔‘‘
اور یہ مسئلہ کہ شوہر اپنی بیوی سے دور اور غائب رہے، تو اگر بیوی اس غیاب اور غیر حاضری پر راضی ہو تو اس کے شوہر کو کوئی ضرر نہیں کہ وہ چار ماہ غائب رہے یا چھ ماہ یا سال یا دو سال، بشرطیکہ عورت کسی پُر امن علاقے اور ماحول میں ہو۔ اگر اس کا علاقہ اور ماحول پُرامن نہ ہو تو شوہر کے لیے جائز نہیں کہ اسے اس فساد زدہ ماحول میں چھوڑ کر سفر کر جائے۔ ایسے ہی اگر اس کا ماحول پُرامن ہو مگر بیوی راضی نہ ہو تو اسے چار ماہ یا چھ ماہ سے زیادہ غائب رہنا، جیسے کہ قاضی فیصلہ دے، حلال نہیں ہے۔ شوہر کو چاہئے کہ اپنی بیوی کے ساتھ معروف طور طریقے سے زندگی گزارے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب