السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک خاتون کا سوال ہے کہ اگر کسی کا شوہر وفات پا جائے اور اس پر قرضہ ہو اور بیوی اسے ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلاشبہ قرض کا مسئلہ اہم ترین مسائل میں سے ہے، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت فی سبیل اللہ کے فضائل میں فرمایا ہے کہ یہ شہادت سب گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے مگر قرض کا کفارہ نہیں بنتی۔ مسند امام احمد اور سنن ابی داود میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی علیہ السلام نے فرمایا:
نفس المؤمن معلقة بدينه حتى يقضى عنه
’’مومن کی جان اس کے قرض کے ساتھ لٹکی (یا اٹکی) رہتی ہے، حتیٰ کہ اسے ادا کر دیا جائے۔‘‘ (سنن الترمذی،کتاب الجنائز،باب ماجاءعن النبی انہ قال نفس المومن معلقۃ بدینہ،حدیث:1078،1079۔سنن ابن ماجہ،کتاب الصدقات،باب التشدید فی الدین،حدیث:2413والمستدرک للحاکم:32/2،حدیث:2219۔السنن الکبری للبیھقی:4/61،حدیث:6891۔)
حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اس کا بھائی فوت ہو گیا، اور تین سو درہم چھوڑ گیا، اس کے بال بچے بھی تھے، سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ یہ رقم اس کے بچوں پر خرچ کروں گا، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا:
إن أخاك محبوس بدينه , فاقض عنه
’’تیرا بھائی اپنے قرضے میں پکڑا ہوا ہے، اسے ادا کرو۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل:136/4،حدیث:17266وسنن ابن ماجہ،کتاب الصدقات،باب اداءالدین عن المیت،حدیث:2433۔)
کہتے ہیں کہ میں نے اس کا قرض ادا کر دیا، اور آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ سب قرضہ ادا کر دیا ہے، سوائے دو دیناروں کے، جن کی ایک عورت مدعی ہے، اور اس کے پاس کوئی گواہی نہیں ہے، تو آپ نے فرمایا: ’’اسے دے دے، وہ سچی ہے۔‘‘
اس حدیث کے بارے میں اہل علم کہتے ہیں کہ یا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قرضے کے بارے میں اطلاع تھی یا آپ کو بذریعہ وحی خبر دی گئی تھی کہ وہ عورت سچی ہے۔ مگر (فقہی طور پر قاعدہ یہ ہے کہ) ہر وہ شخص جو کسی میت پر قرضے کا مدعی ہو اور گواہ پیش نہ کر سکے، تو اس کے لیے کچھ نہیں ہے۔
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ پڑھایا، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے صبح کی نماز پڑھائی، اس سے فارغ ہوئے تو دریافت کیا، کیا یہاں آل فلاں کا کوئی آدمی ہے؟ صحابی خاموش رہے، اور ان کی یہ عادت تھی کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کسی کا پوچھتے تو وہ خاموش رہتے تھے، اس اندیشے سے کہ کہیں اس کے بارے میں کوئی آیت ہی نازل نہ ہو چکی ہو، حتیٰ کہ آپ تین بار دہراتے، تو تیسری بار میں ایک آدمی نے کہا: میں حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول! وہ آدمی پیچھے سے اپنی چادر سنبھالتے ہوئے کھڑا ہوا۔ آپ نے پوچھا: ’’کیا بات تھی کہ پہلی دو بار میں تو نے جواب نہیں دیا؟ میں نے تیرا نام خیر ہی سے پکارا ہے۔ فلاں آدمی اپنے قرضے کی وجہ سے جنت سے روکا ہوا ہے، اگر چاہو تو اس کا فدیہ دے دو۔ جاؤ اور اس کا قرض ادا کرو، حتیٰ کہ کوئی کسی قسم کا مطالبہ کرنے والا باقی نہ رہے، اب وہ پکڑا ہوا ہے۔‘‘ (سنن النسائی،کتاب البیوع،باب التغلیظ فی الدین،حدیث:4685ومسند احمد بن حنبل:20/5،حدیث:20244،والسنن الکبری للبیھقی:49/6،حدیث:11049۔)
اس حدیث میں یہی بیان ہے کہ وہ بندہ اپنے قرض ہی کی وجہ سے جنت سے روکا گیا تھا۔
لیکن اگر کوئی بندہ کوئی قرض لیتا ہے، اور پھر اسے ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے، پھر بھی اس کی ادائیگی سے عاجز رہتا ہے، اور ادائیگی سے پہلے فوت ہو جاتا ہے تو چاہئے کہ بیت المال سے اس کی ادائیگی کی جائے یا مسلمانوں میں سے کوئی اہل خیر اس کی طرف سے ادا کر دے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ اس بندے کی طرف سے ادا کر دے گا دنیا میں یا آخرت میں، اور اس بارے میں صحیح احادیث آئی ہیں، مثلا طبرانی کبیر میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الدين دينان، فمن مات وهو ينوي قضاءه فأنا وليه، ومن مات وهو لا ينوي قضاءه فذاك الذي يؤخذ من حسناته يوم القيامة، ليس يومئذ دينار ولا درهم
’’قرض دو طرح سے ہے۔ جو شخص فوت ہو گیا اور اس کی نیت تھی کہ وہ اسے ادا کرے (مگر نہیں کر سکا) تو میں اس کا ولی ہوں۔ اور (دوسرا) وہ شخص جو فوت ہو گیا اور اس کی ادا کرنے کرنے کی کوئی نیت نہیں تھی، تو یہی وہ شخص ہے جس کی نیکیاں لے لی جائیں گی (جبکہ) وہاں کوئی درہم و دینار نہیں ہوں گے۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی:243/8،حدیث:7949۔الفاظ میں معمولی فرق ہے البتہ معنی ومفہوم وہی ہے جو فتویٰ میں ذکر کیا گیا ہے یا شیخ نے روایت بالمعنی بیان کی ہے۔واللہ اعلم)
سنن ابن ماجہ میں سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما من مسلم يدان دينا علم الله منه انه يريد اداءه الا ادى الله عنه فى الدنيا والاخرة
’’جو کوئی مسلمان قرض لیتا ہے اور اللہ جانتا ہے کہ وہ اسے ادا کرنا چاہتا ہے تو اللہ اس کی طرف سے دنیا اور آخرت میں ادا کر دے گا۔‘‘ (سنن ابن ماجہ،کتاب الصدقات،باب من ادان دنیا وھو ینوی قضاءہ،حدیث:2408۔سنن النسائی،کتاب البیوع،باب التسھیل فیہ،حدیث:4686۔'والاخرۃ'کا لفظ حدیث میں نہیں ہے فتوی میں شاید کاتب/کمپوزرکی غلطی سے لکھا گیا ہے۔
مستدرک حاکم کے الفاظ یہ ہیں:
الا تجاوز الله عنه و ارضى نمريمه بما شاء
’’ایسے بندے کو اللہ معاف فرما دے گا اور اس کے قرض خواہ کو (اپنی طرف سے) راضی کر دے گا، جیسے چاہے گا۔‘‘ (المستدرک للحاکم:28/2،حدیث:2206۔)
مسند احمد میں بسند صحیح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ حَمَلَ مِنْ أُمَّتِي دَيْنًا ثُمَّ جَهَدَ فِي قَضَائِهِ ، فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ يَقِضِيَهُ فَأَنَا وَلِيُّهُ
’’میری امت کے کسی فرد نے اگر قرض لیا ہو، پھر اس کے ادا کرنے کی کوشش کی (یا اس کی ادائیگی سے لاچار ہو گیا) اور فوت ہو گیا اور ادا نہ کر پایا، تو میں اس کا ولی ہوں۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل:74/6،حدیث:24499۔السنن الکبری للبیھقی:22/7،حدیث:12976۔المعجم الاوسط للطبرانی:134/9،حدیث:9338۔)
بہرحال یہ احادیث اس بات پر محمول ہیں کہ فوت ہونے والا اگر مال چھوڑ گیا ہو تو اس کے وارثوں کو چاہئے کہ اس کے قرضے کی ادائیگی میں جلدی کریں، باقی ترکہ بعد میں تقسیم ہو۔ اور معروف بھی یہی ہے کہ پہلے قرضہ ہے پھر وصیت، بشرطیکہ تہائی سے زیادہ نہ ہو، پھر اس کے بعد وارثوں میں تقسیم ہو۔
صحیح مسلم میں ہے، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرماتے تو اس میں کئی طرح کے ارشاد ہوتے ۔۔ ان میں یہ بات بھی ہوتی ۔۔
من ترك مالا فلورثته ومن ترك ضياعا او دينا فالى و على فانا اولى بكل مسلم من نفسه
’’جو بندہ کوئی مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کے لیے ہے، اور جو بال بچے چھوڑ جائے یا قرض تو وہ میری طرف ہے، میرے ذمے ہے، میں ہر مسلمان کے لیے اس کی جان سے بھی قریب تر ہوں۔‘‘(صحیح بخاری،کتاب التفسیر،سورۃالاحزاب،حدیث:4503۔صحیح مسلم،کتاب الجمعۃ،باب تحفیف الصلاۃوالخطبۃ،حدیث:867وسنن ابی داود،کتاب الخراج والفیء والامرۃ،باب فی ارزاق الذریۃ،حدیث:2954۔سنن النسائی،کتاب الصلاۃالعیدین،باب کیف الخطبۃ،حدیث:1578۔صحیح بخاری کی روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جو دیگر روایات کی نسبت مختصر ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب