سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(651) عورتوں کا اپنے مطالبات میں شوہروں پر بوجھ ڈالنا

  • 18258
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 669

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بہت سی عورتیں اپنے مطالبات میں شوہروں پر بہت بوجھ ڈال دیتی ہیں حتیٰ کہ اسے اس غرض کے لیے قرض کا زیر بار ہونا پڑتا ہے۔ اور بہت سی عورتیں اس بار میں لا پروائی سے کہہ دیتی ہیں کہ یہ تو ہمارا حق ہے۔ کیا ان کی یہ بات صحیح ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوچ اور عمل کا یہ انداز بہت برا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿لِيُنفِق ذو سَعَةٍ مِن سَعَتِهِ وَمَن قُدِرَ عَلَيهِ رِزقُهُ فَليُنفِق مِمّا ءاتىٰهُ اللَّهُ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا ما ءاتىٰها... ﴿٧﴾... سورة الطلاق

’’چاہئے کہ وسعت والا اپنی وسعت سے خرچ کرے اور جس کا رزق تنگ ہو وہ اسی میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اس کو دیا ہو۔ اللہ تعالیٰ کسی جان کو اتنا ہی مکلف کرتا ہے جتنا اس نے اس کو دے رکھا ہو۔‘‘

تو کسی خاتون کے لیے حلال نہیں ہے کہ اپنے شوہر سے اس کی وسعت سے زیادہ کا مطالبہ کرے، بلکہ اگر وہ طاقت رکھتا ہو تب بھی اسے اتنا ہی مطالبہ کرنا حلال ہے جو عرف کے مطابق ہو۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

﴿وَعاشِروهُنَّ بِالمَعروفِ...﴿١٩﴾... سورةالنساء

’’ان عورتوں کے ساتھ معروف (اور بھلے طریقے) کے ساتھ زندگی گزارو۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَعاشِروهُنَّ بِالمَعروفِ...﴿١٩﴾... سورةالنساء

’’اور ان عورتوں کے استحقاقات بھی اس کی مثل ہیں جو معروف انداز میں ان کے واجبات اور فرائض ہیں۔‘‘

اور شوہروں کے لیے بھی حلال نہیں ہے کہ خرچ اخراجات کے سلسلے میں معروف اور واجب سے بخیل بن جائیں۔ کیونکہ بعض شوہروں کو دیکھا گیا ہے کہ از حد بخیلی کی وجہ سے وہ لازمی اخراجات سے بھی کنارہ کش رہتے ہیں، تو اس صورت میں عورت کو اجازت ہے کہ اس کے مال سے خواہ بغیر بتائے بھی لینا پڑے تو لے سکتی ہے (مگر معروف اور جائز حد تک)۔ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے شوہر ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی شکایت کی کہ وہ ایک بخیل آدمی ہیں، مجھے اتنا خرچ نہیں دیتے ہیں جو میرے اور بچوں کے لیے کافی ہو، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:

خذى ما يكفيك من ماله ويكفى بنبيك بالمعروف

’’تو اس کے مال سے اس قدر لے لیا کرو جو تجھے اور تیرے بچوں کو معروف انداز میں کافی ہو۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب النفقات،باب اذا لم ینفق الرجل فللمراۃان تاخذ بغیرمایکفیھا وولدھا،حدیث:5049وصحیح مسلم،کتاب الاقضیۃ،باب قضیۃ ھند،حدیث:1714وسنن ابی داود،کتاب الاجارۃ،باب فی الرجل باخذ حقہ من تحت یدہ،حدیث:3532وسنن النسائی،کتاب آداب القضاۃ،باب قضاءالحاکم علی الغائب اذاعرفہ،حدیث:5420)فتویٰ میں ذکر کیے گئے الفاظ صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ کے زیادہ قریب ہیں تاہم یہ روایت دوسری کتب احادیث میں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ متعدد مقامات پر مروی ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 459

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ