سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(642) شرعی مسئلہ سے ناواقف ہونے سے پہلے عورت کی دبر میں ملاپ کیا؟

  • 18249
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 796

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس شخص کے متعلق کیا حکم شرعی ہے جو اپنی بیوی سے اس کی دبر میں ملاپ کرے جبکہ وہ اس مسئلے کی شرعی حیثیت سے جاہل بھی ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مرد کے لیے حرام ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اس کی دبر میں جماع کرے۔ اگر کسی سے لا علمی میں ایسا ہوا ہو تو وہ معذور ہے، اور اس کا جرم معاف ہے بشرطیکہ اس کی حرمت کا علم ہو جانے کے بعد اس سے باز آ جائے۔

حرام ہونے کی دلیل وہ حدیث ہے جو مسند احمد، بخاری اور مسلم کی جانب سے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، یہودی کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی اپنی بیوی کو اس کی دبر کی جانب سے اس کی قبل میں جماع کرے اور وہ حاملہ ہو جائے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے۔‘‘  تو اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی:

﴿نِساؤُكُم حَرثٌ لَكُم فَأتوا حَرثَكُم أَنّىٰ شِئتُم...﴿٢٢٣﴾... سورة البقرة

’’تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں، تو اپنی کھیتیوں کو جہاں سے جی چاہے آؤ۔‘‘

اور مسلم شریف میں ہے ’’خواہ وہ اوندھے منہ ہو یا اس کے علاوہ، بشرطیکہ میں مجامعت کرے۔‘‘ اور آیت کریمہ نے واضح کیا کہ کوئی سی بھی حالت ہو جائز ہے، چت لیٹی ہوئی ہو یا اوندھے منہ، بشرطیکہ دخول قبل میں ہو۔ اور اس میں دلیل صحابہ کرام کا فہم ہے، جبکہ وہ خالص عرب تھے۔ اور اللہ عزوجل نے عورتوں کو ’’کھیتیاں‘‘ قرار دیا ہے، جہاں سے کہ اولاد کی توقع کی جاتی ہے۔ اگر کوئی دبر میں یہ عمل کرے تو ادھر سے اولاد کی کوئی امید نہیں ہو سکتی۔ آیت کریمہ کا سبب نزول اور اس میں حمل کا ذکر اور بچے کا بھینگا ہونا وغیرہ، یہ سب چیزیں (قبل سے متعلق ہیں) دبر سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مسند احمد اور ترمذی میں ہے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نبی علیہ السلام سے ﴿نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ﴾ کی تفسیر میں بیان کرتی ہیں کہ ۔۔ ’’جب دخول (قبل کے) ایک ہی سوراخ میں ہو۔‘‘

 امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس روایت کو حسن کہا ہے۔

علاوہ ازیں بیوی سے اس کی دبر میں مجامعت سے منع کے بارے میں کئی احادیث وارد ہیں، مثلا مسند احمد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لا تاتو النساء فى اعجازهن، او قال ادبارهن)

’’عورتوں کو ان کی دبروں میں مت آیا کرو۔‘‘

یہاں حضرت علی سے مراد حضرت علی بن طلق رضی اللہ عنہ ہیں۔

ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں:

(لا تأتوا النساء في أستاههن فإن الله لا يستحيي من الحق)

’’عورتوں کو ان کی پیٹھوں میں مت آیا کرو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ حق سے حیا نہیں فرماتا ہے۔‘‘

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 454

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ