السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عورت کی دُبر میں مباشرت کا کیا حکم ہے، یا جو ایام حیض یا نفاس میں یہ کام کرے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ قطعا حلال اور جائز نہیں ہے کہ عورت کی دبر میں مباشرت کی جائے یا جب وہ حیض یا نفاس کے ایام میں ہو۔ یہ کام کبیرہ گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ وَيَسـَٔلونَكَ عَنِ المَحيضِ قُل هُوَ أَذًى فَاعتَزِلُوا النِّساءَ فِى المَحيضِ وَلا تَقرَبوهُنَّ حَتّىٰ يَطهُرنَ فَإِذا تَطَهَّرنَ فَأتوهُنَّ مِن حَيثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوّٰبينَ وَيُحِبُّ المُتَطَهِّرينَ ﴿٢٢٢﴾ نِساؤُكُم حَرثٌ لَكُم فَأتوا حَرثَكُم أَنّىٰ شِئتُم ...﴿٢٢٣﴾... سورةالبقرة
’’یہ لوگ آپ سے حیض کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دیجئے: یہ گندگی ہے، تو حیض میں عورتوں سے علیحدہ رہو،اور ان سے مقاربت مت کرو حتیٰ کہ پاک ہو جائیں، اور جب خوب پاک ہو جائیں تو ان کو آؤ جہاں سے کہ تم کو اللہ نے حکم دیا ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے، اور ان سے بھی جو پاکیزگی اختیار کرنے والے ہوں۔ تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں، تو آؤ اپنی کھیتی کو جہاں سے چاہو۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ ایام حیض میں عورتوں سے علیحدہ رہنا واجب ہے، اور جب تک پاک نہ ہو جائیں ان سے مقاربت نہ کی جائے۔ تو حیض کے علاوہ نفاس کا بھی یہی حکم ہے۔ اس حالت میں ان سے جماع حرام ہے۔ اور بیوی جب غسل کر کے خوب پاک ہو جائے تو شوہر کو اس س مقاربت کرنا جائز اور حلال ہے، جہاں سے کہ اللہ نے حکم کیا ہے، یعنی قبل میں (آگے کے حصہ میں) اور یہی کھیتی کی جگہ ہے۔ دبر (پیچھے کا حصہ) گندگی اور نجاست کی جگہ ہے، کھیتی کی جگہ ہرگز نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسا کرے تو یہ شریعت میں واضح معصیت اور کبیرہ گناہ ہے۔ سنن ابی داؤد اور نسائی میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ملعون ہے وہ شخص جو اپنی عورت کو اس کی دبر میں آتا ہے۔" (سنن ابی داود،کتاب النکاح،باب فی جامع النکاح،حدیث:2162ومسند احمد بن حنبل:2/444،حدیث:9731۔سنن النسائی الکبریٰ:5/323،حدیث:9015۔) جامع ترمذی اور نسائی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کی طرف نظر نہیں فرمائے گا جو کسی مرد کو آئے یا عورت کی دبر میں مباشرت کرے۔" (سنن الترمذی،کتاب الرضاع،باب کراھیۃاتیان النساءفی ادبارھن،حدیث:1165۔صحیح ابن حبان:10/266،حدیث:4418،مسند ابی یعلی:4/266،حدیث:2378۔) اور سند اس کی صحیح ہے۔
دُبر میں مباشرت عورت سے ہو یا مرد سے، یہ وہ حرام کام ہے جو قوم لوط کیا کرتی تھی۔ حضرت لوط علیہ السلام کا یہ بیان قرآن مجید میں محفوظ ہے:
﴿إِنَّكُم لَتَأتونَ الفـٰحِشَةَ ما سَبَقَكُم بِها مِن أَحَدٍ مِنَ العـٰلَمينَ ﴿٢٨﴾... سورةالعنكبوت
’’تم لوگ ایسی بے حیائی کے مرتکب ہوتے ہو جو تم سے پہلے جہان والوں میں کسی نے نہیں کی۔‘‘
اور نبی علیہ السلام کا فرمان ہے:
لعن الله من عمل قوم لوط قالها ثلاثا
’’اللہ کی لعنت ہے اس شخص پر جو قوم لوط کا عمل کرے، تین بار فرمایا۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل:1/309،حدیث:2817،ایضا:1/317حدیث:2917والمستدرک للحاکم:4/396،حدیث:8052ومسند ابی یعلی:414/4،حدیث:2539۔)
تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ ایسے تمام کام جو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرائے ہیں، ان سے اجتناب کریں۔ بالخصوص شوہروں کے لیے یہ ہے کہ وہ اس حرام کے بالکل قریب نہ جائیں اور بیویوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے شوہروں کو اس منکر عظیم (بہت بڑے کبیرہ گناہ) کا قطعا موقع نہ دیں کہ وہ حیض نفاس کے ایام میں یا دبر میں مباشرت کریں۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ وہ سب مسلمانوں کو اپنی پاکیزہ شریعت کی مخالفت سے عافیت اور سلامتی میں رکھے، بلاشبہ وہی سب سے عظیم اور برتر ہے جس سے دعائیں کی جاتی ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب