السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی ایک دوشیزہ کے لیے نکاح کا پیغام دیتا ہے، مگر اس کا ولی اس لڑکی کو نکاح سے باز رکھنے کے لیے انکار کر دیتا ہے، اس بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اولیاء پر واجب ہے کہ جب انہیں ان کے زیر کفالت لڑکیوں کے ہم پلہ (کفو) پیغام نکاح دیں، اور لڑکیوں کا بھی ان کی طرف میلان ہو تو اس کام میں جلدی کیا کریں۔ نبی علیہ السلام کا فرمان ہے: ’’جب تمہیں کوئی ایسا شخص پیغام دے جس کا دین و اخلاق پسندیدہ ہو تو اس سے شادی کر دو، اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں ایک بڑا فتنہ و فساد ہو گا۔‘‘ (سنن الترمذی،کتاب النکاح،باب اذاجاءکم من ترضون دینہ فزوجوہ،حدیث:1084،1085۔سنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب الاکفاء،حدیث:1967والمستدرک للحکام:179/2،حدیث:2695۔)
اور لڑکیوں کو نکاح سے صرف اس وجہ سے باز رکھنا کہ وہ اپنے چچا زاد یا دوسروں کی طرف راغب نہیں ہیں، یا اس طمع میں کہ مال زیادہ ملے یا اس قسم کے دوسرے سبب ہوں، تو اللہ و رسول نے ان باتوں کو شریعت نہیں بنایا ہے۔ بلکہ اولو الامر حکام و قضاۃ پر واجب ہے کہ اگر کہیں ایسے اولیاء کا پتہ چلے تو ان کا ہاتھ پکڑیں (اور ان کے اس حق ولایت سے انہیں محروم کر کے) ان کی بجائے حسب درجات دوسرے اولیاء کو اجازت دیں کہ وہ ان کے نکاح کریں تاکہ ظلم کا دروازہ بند ہو اور حق و انصاف کا بول بالا ہو اور نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جو اس قسم کے اولیاء کی طرف سے ظلم اور رکاوٹوں کی وجہ سے حرام میں پڑتے ہیں ان کا تحفظ اور بچاؤ کیا جا سکے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب