سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(626) چھوٹے بھائی کی موجودگی میں ماموں کا ولی بننا

  • 18233
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1224

سوال

(626) چھوٹے بھائی کی موجودگی میں ماموں کا ولی بننا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک یتیم لڑکی ہے، اس کا بھائی بارہ سال کا ہے، تو اس کے ماموں نے اس کا نکاح کر دیا ہے، یہ ماموں اس کا عصبہ (’’عصبہ‘‘سے یہاں وہ مرد رشتہ دار مراد ہے جس کے ساتھ رشتے میں کوئی عورت حائل نہ ہو مثلاًبیٹا،پوتا،باپ دادا،چچا وغیرہ اس کی کئی صورتیں ہیں جو علم وراثت میں ملاحظہ ہوں)) ابعد ہے، دوسرے رشتہ دار عصبہ موجود ہیں، مگر معلوم نہیں کہ کون زیادہ قریبی ہے، اس نکاح کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 ماموں اس مقصد کے لیے ولی نہیں ہے اور نہ وہ بھائی جو ولایت سے قاصر ہو۔ اس کے شرعی ولی قریب ترین عصبہ ہیں جو راشد یعنی ہر طرح سے اس کے خیر خواہ ہوں۔ تو چاہئے کہ اگر وہ قرابت میں برابر ہوں تو یہ کسی ایک کو اپنے عقد کے لیے اجازت دے۔ اور جیسے کہ آپ نے ذکر کیا کہ وہ ماموں لڑکی کا عصبہ ہے، اگر یہی سب سے قریبی بنتا ہو، یا اس ماموں کو بھی اس کے کسی اقرب عصبہ کا علم نہ ہو تو یہ عقد صحیح ہو گا۔ اور اگر معلوم ہو کہ ماموں سے قریب تر عصبہ حاضر موجود ہے تو یہ عقد صحیح نہیں ہو گا، ضروری ہے کہ ان زوجین میں تفریق کی جائے، اور پھر اس اقرب عصبہ کی زیر ولایت لڑکی رضا سے عقد کی تجدید کی جائے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 441

محدث فتویٰ

تبصرے