السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت اپنے والد کے ساتھ یمن سے طائف آئی، یہاں اس کے والد نے اس کا نکاح کر دیا اور خود ریاض چلا گیا۔ کچھ دنوں کے بعد شوہر نے اس لڑکی کو طلاق دے دی تو وہ اپنے والد کے پاس ریاض چلی آئی، پھر والد کی وفات بھی ہو گئی۔ اب نہ اس کا والد ہے اور نہ شوہر۔ اس کے دو پدری بھائی ہیں جو یمن میں ہیں۔ عدت ختم ہونے کے بعد ایک یمنی نے اسے نکاح کا پیغام بھیجا ہے تو کیا یہ عورت اس مقصد کے لیے کسی کو اپنا وکیل بنا سکتی ہے، یا ضروری ہے کہ اس کے بھائی وکیل بنائیں؟ یا انہیں خود یمن سے ریاض آنا ہو گا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلہ میں جہاں تک میں سمجھتا ہوں، یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو اس کے بھائی خود آئیں، اگر آ نہیں سکتے تو کسی کو وکیل بنائیں، اگر یہ بھی مشکل ہو یا اس میں طویل انتظار کرنا پڑتا ہو تو علماء کہتے ہیں کہ اگر کسی عورت کا ولی غائب ہو اور اس کا آنا مشکل ہو تو اس کا دور کا ولی اس کی شادی کر دے، اور کوئی بھی ولی موجود نہ ہو تو حاکم (قاضی، جج) اس کا ولی ہے۔ جیسے کہ حدیث میں ہے کہ: ’’سلطان (حاکم) اس کا ولی ہے جس کا اور کوئی ولی نہ ہو۔‘‘ (سنن ابی داود،کتاب النکاح،باب فی الولی،حدیث:2083وسنن الترمذی،کتاب النکاح،باب لا نکاح الا بولی،حدیث:1102۔سنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب لا نکاح الا بولی،حدیث:1879ومسند احمد بن حنبل:250/1،حدیث:2260۔) تو یہ عورت بسبب اولیاء نہ ہونے کے یا بہت زیادہ دور ہونے کے ایسے سمجھی جائے گی گویا اس کا کوئی ولی نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب