السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمیں آپ کا مکتوب ملا ہے کہ آسٹریلیا کی ایک لڑکی نے بغیر ولی کے اپنا نکاح کیا ہے، اس کے حق مہر کا تعین بھی نہیں ہوا ہے، اور اس نکاح کے گواہوں میں ایک مسلمان مرد اور ایک عیسائی عورت ہے، جو اس کی ماں ہے، علاوہ اس کی مجلس نکاح میں چند دوسری عیسائی عورتیں اور اس لڑکی کی ساتھی موجود تھیں، اور ایک اس نکاح کی رجسٹر عیسائی عورت تھی۔ چار سال بعد یہ عورت مسلمان ہو گئی ہے اور اس کے اس شوہر سے دو بچے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ نکاح صحیح ہے؟ اگر یہ صحیح نہیں تو اس کو کس طرح صحیح کیا جا سکتا ہے؟ اور یہ نماز کیسے پڑھے جبکہ اسے سوائے انگریزی زبان کے اور کچھ نہیں آتا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جس انداز سے یہ نکاح ہواہے یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس میں لڑکی کا کوئی ولی نہیں تھا اور دو گواہ بھی نہیں ہیں۔ نبی علیہ السلام کا فرمان ہے: ’’ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہے۔‘‘ (صحیح ابن حبان:9/386،حدیث:4075۔سنن الدارقطنی:3/221،حدیث:11۔السنن الکبری للبیھقی:124/7،حدیث:13494۔) اور اس طرح عقد میں حق مہر کا بھی ذکر نہیں ہوا ہے، یہ بھی درست نہیں ہے۔ اور اس نکاح کی تصحیح اس طرح ہے کہ اس عورت کا ولی نکاح رجسٹرار کے پاس حاضر ہو اور اس شوہر کے ساتھ اس کی رضامندی اور اجازت سے نکاح کیا جائے اور دو عادل گواہ بھی حاضر ہوں۔ اگر اس کا ولی موجود نہ ہو تو حاکم شرعی اس کا ولی ہے، یہ عورت اسے اجازت دے اور پھر اس کا نکاح کیا جائے۔ اور جو پہلے ہو چکا، اس کا ان پر کچھ نہیں ہے، اور ان کی یہ اولاد بھی شرعی ہے، ان کا اپنے باپ سے نسب بالکل صحیح ہے، کیونکہ یہ دونوں سابقہ عقد کو صحیح ہی سمجھتے تھے، اور ان دونوں کا یہ ملاپ (فقہی اصطلاح میں) شبہ کا ملاپ ہے اور مسئلہ نماز میں اس عورت کو جلد از جلد فاتحہ اور دیگر لازمی اذکار یاد کرائے جائیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب