سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(612) بیٹی کے نکاح کے سلسلے میں باپ کا جبر کرنا

  • 18219
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 585

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 بیوی بیٹی پر اگر اس کا باپ نکاح کے سلسلے میں جبر کرے تو


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ میں کہ باپ نے اپنی بیوی بیٹی کو اس کے چچا زاد کے ساتھ جبرا بیاہ دیا ہے، لڑکی بیوہ، بالغہ اور خوب سمجھ بوجھ والی ہے اور اس نکاح کو دس سال ہو رہے ہیں اور ان کا ملاپ نہیں ہوا ہے، اور لڑکی اس پر راضی نہیں ہے، اور اب وہ اذیت محسوس کرتی ہے اور اصرار کرتی ہے کہ میرا نکاح فسخ کر دیا جائے، تو اس سلسلے میں ہم یہ کہتے ہیں کہ جب حقائق یہی ہیں تو اس کی یہ شادی صحیح نہیں ہے۔ صحت نکاح کی شروط میں سے ایک یہ ہے کہ دونوں میاں بیوی راضی ہوں۔ اگر وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک راضی نہ ہو تو یہ نکاح صحیح نہیں ہوتا۔ باپ کا اپنی چھوٹی اولاد پر یا اگر وہ غیر عاقل ہوں یا لڑکیاں کنواری ہوں، نکاح کے سلسلہ میں جبر کرنے کے بارے میں دو قول ہیں۔ لیکن اگر لڑکی بیوہ ہو، بالغہ اور عاقلہ ہو تو بلا اختلاف باپ (یا کوئی اور بھی) اس پر جبر نہیں کر سکتا ہے۔ اکثر اہل علم کا یہی قول ہے۔ سیدہ خنساء بنت حرام انصاریہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ ہے کہ ان کے باپ نے اس کا نکاح جبرا کر دیا تھا جبکہ وہ بیوی تھیں، اور انہیں یہ نکاح ناپسند تھا، تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آئیں تو آپ نے ان کا نکاح رد کر دیا تھا۔ ۔فتویٰ میں اس صحابیہ کے باپ کا نام’’حرام‘‘ذکر کیا گیا ہے جو درست نہیں ہے۔ان کا نام دارمی کے ایک نسخہ میں حزام جبکہ سنن الدارمی کے ایک نسخہ(مطبوعہ مکہ)،المعجم الکبیر للطبرانی کی ایک روایت،السنن الکبری للبیھقی اور صحیح بخاری کے ایک نسخہ(مطبوعہ دار السلام)میں حذام ہے اور امام بخاری،حافظ ابن حجر،ابوداود،ترمذی،نسائی،شافعی،احمد بن حنبل،ابن حارود اور دور حاضر کے نامور عظیم محقق الشیخ شعیب الارناؤوط وغیرہ نے’’حذام‘‘ بیان کیا ہے اور اسی کو ترجیح دی ہے۔دیکھیے:التاریخ الکبیر:376/2،ترجمہ نمبر2825الاصابہ:611/7،ترجمہ نمبر:11104مسند شافعی:172/1حدیث:828مسند احمد بن حنبل:364/1،تحت حدیث:3440

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 436

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ