سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(608) حق مہر کب واجب ہوتا ہے؟

  • 18215
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1959

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حق مہر کب واجب ہوتا ہے، عقد نکاح سے یا رخصتی اور دخول سے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت کے لیے کامل مہر ان صورتوں میں ثابت ہوتا ہے کہ زوجین کو خلوت حاصل ہو جائے، یا جماع یا ہم بستری ہو یا وفات ہو جائے۔ اگر کسی کا کسی عورت سے عقد نکاح ہو گیا ہو اور پھر انہیں لوگوں سے علیحدہ خلوت بھی میسر آ گئی ہو اور پھر خواہ وہ طلاق ہی دے دے تو اسے حق مہر پورا ادا کرنا ہو گا، اسی طرح باقی دوسری صورتیں ہیں۔

اسی طرح یہ صورت بھی ہے کہ اگر عقد ہو گیا ہو، خواہ وہ ایک دوسرے سے نہ ملے ہوں، نہ دیکھا ہو، یا کوئی باہم بات چیت نہ کی ہو اور مرد کی وفات ہو جائے، تو اس عورت کو عدت وفات گزارنی ہو گی، یہ اس کی وراثت کی حقدار ہو گی اور اگر حق مہر معین نہ ہوا ہو اتو مہر مشکل کی حقدار ہو گی۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ اس پر ناک بھوں چڑھائیں اور کہیں کہ یہ کیسے اور کیوں کر ہو سکتا ہے کہ ان کا آپس میں کوئی ملاپ نہیں ہوا یا ایک دوسرے کو دیکھا تک نہیں ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ (عقد نکاح ہو جانے کے بعد وہ اس کی بیوی ہے) اور اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

﴿وَالَّذينَ يُتَوَفَّونَ مِنكُم وَيَذَرونَ أَزو‌ٰجًا يَتَرَبَّصنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَربَعَةَ أَشهُرٍ وَعَشرًا... ﴿٢٣٤﴾... سورةالبقرة

’’اور جو تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں، تو ان بیویوں پر ہے کہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دن تک روکے رکھیں (یعنی عدت گزاریں)۔‘‘

یہ اس کی بیوی ہے خواہ ان کی ملاقات نہیں بھی ہوئی۔

یہاں ایک اور سوال ہے کہ اگر عقد نکاح ہو گیا ہو اور پھر شوہر اسے خلوت اور ملاپ سے پہلے ہی طلاق دے دے تو اس کے لیے آدھا حق مہر ہے، اگر بوقت عقد مقرر کیا گیا ہو۔ ورنہ اگر مقرر نہ ہوا تو اس کے لیے اور عدت کوئی نہیں "متعہ" ہے (یعنی کم از کم ایک جوڑا کپڑے) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا نَكَحتُمُ المُؤمِنـٰتِ ثُمَّ طَلَّقتُموهُنَّ مِن قَبلِ أَن تَمَسّوهُنَّ فَما لَكُم عَلَيهِنَّ مِن عِدَّةٍ تَعتَدّونَها ...﴿٤٩﴾... سورة الأحزاب

’’اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر مساس سے پہلے انہیں طلاق دے دو، تو تمہارے لیے ان کے ذمے کوئی عدت نہیں جو وہ گزاریں۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَإِن طَلَّقتُموهُنَّ مِن قَبلِ أَن تَمَسّوهُنَّ وَقَد فَرَضتُم لَهُنَّ فَريضَةً فَنِصفُ ما فَرَضتُم إِلّا أَن يَعفونَ أَو يَعفُوَا۟ الَّذى بِيَدِهِ عُقدَةُ النِّكاحِ ... ﴿٢٣٧﴾... سورةالبقرة

’’اور اگر تم انہیں مساس سے پہلے ہی طلاق دے دو، اور حق مہر مقرر کر چکے ہو تو اس کا آدھا (ادا کرنا) ہے جو تم نے ان کے لیے مقرر کیا ہے، ہاں اگر وہ عورتیں معاف کر دیں یا وہ شخص معاف کر دے جس کے ہاتھ میں اس کی گرہ ہے۔‘‘

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 434

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ