السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی پہلے سے دیے گئے پیغام نکاح پر پیغام دیتا ہے، کیا یہ عمل جائز ہے؟ اور اس کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
الحمدللہ، صحیح احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، آپ نے فرمایا ہے کہ:
’’کسی آدمی کے لیے حلال نہیں ہے کہ اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیحام دے یا اپنے بھائی کے سودے پر سودا کرے۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب البیوع،باب لایبیع علی بیع ولا یسوم علی سوم اخیہ،حدیث:2033وصحیح مسلم،کتاب النکاح،باب تحریم الجمع بین المراۃ وعمتھا او خالتھا فی النکاح،حدیث:1498۔سنن ابی داود،کتاب النکاح،باب فی کراھیۃ ان یخطب الرجل علی خطبۃ اخیہ،حدیث:2081۔مسند احمد بن حنبل:2/389،حدیث:10351۔فتویٰ میں ذکر کردہ الفاظ مسند احمد کی روایت کے ہیں البتہ اس کے ہم معنی الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ روایات دیگر کتب میں بھی موجود ہیں۔)
اس لیے ائمہ اربعہ اور دیگر سبھی کے نزدیک متفقہ طور پر یہ کام حرام ہے۔ البتہ اگر اس صورت میں نکاح ہو جائے تو اس بارے میں دو رائیں ہیں: ایک قول یہ ہے کہ ایسا نکاح باطل ہے اور یہ مروی ہے امام مالک رحمہ اللہ سے، اور ایک روایت امام احمد رحمہ اللہ سے بھی یہی ہے۔
اور دوسرا قول یہ ہے کہ نکاح صحیح ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ، شافعی رحمہ اللہ اور ایک روایت میں امام احمد رحمہ اللہ سے یہی آیا ہے۔ اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ حرام وہ عمل ہے جو عقد سے پہلے ہے یعنی خطبہ اور پیغام دینا۔ اور جو حجرات اس عقد کو باطل کہتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ جب پیغام دینا حرام ہے تو نکاح کرنا بالاولیٰ حرام ہوا۔ بہرحال دونوں جانب کے ائمہ متفق ہیں کہ پیغام پر پیغام دینے والا اللہ اور اس کے رسول کا عاصی اور نافرمان ہے۔ اگرچہ ان میں سے کچھ اصحاب کا اس مسئلے میں قدرے اختلاف بھی ہے۔ بہرحال جانتے بوجھتے کسی نافرمانی اور معصیت پر اصرار کرنا بندے کی دینداری، اس کی عدالت اور اس کا مسلمانوں کا والی ہونے کے بارے میں بہت بڑا عیب ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب