سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(599) ايسے ذرائع استعمال کرنا جو مانع حمل ہوں؟

  • 18206
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1114

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا ایسے ذرائع استعمال کرنا جائز ہے جو عورت کے لیے مانع حمل ہوں یا اس میں وقفہ بڑھاتے ہوں؟ اور ان کا استعمال کب جائز ہے جبکہ ان سب ذرائع میں نقصانات بھی ہوتے ہیں؟ اور کیا چھوٹے بچے کا جس کی عمر چند مہینے ہو، نئے حمل کی وجہ سے دودھ چھڑا دینا جائز ہے، اس میں کوئی گناہ تو نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت کے لیے جائز ہے کہ اگر وہ ضرورت محسوس کرتی ہو تو وقتی طور پر ایسے ذرائع اختیار کر سکتی ہے جو اس کے لیے مانع حمل ہوں۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جو صحیح بخاری میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:

’’ہم عزل کیا کرتے تھے جبکہ قرآن بھی نازل ہو رہا تھا۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب النکاح،باب العزل،حدیث:5208،5209وصحیح مسلم،کتاب النکاح،باب حکم العزل،حدیث:1440(صحیح مسلم میں ہے کہ اسحاق بن ابراہیم نے اس حدیث میں یہ الفاظ بھی ذکر کیے ہیں کہ اگر کسی چیز سے روکا جانا ہوتا تو قرآن ہمیں اس عمل سے ضرور روکتا)۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے اس کا نہ حکم دیا اور نہ اس سے منع فرمایا

خیال رہے کہ کچھ وقت تک کے لیے حمل کو روک دینا بھی تین پہلو رکھتا ہے یعنی کہیں مباح ہو گا اور کہیں مکروہ یا حرام۔

حرام اس صورت میں ہے جب کوئی فقر یا اندیشہ فقر کی وجہ سے اس طرح کرے۔ اس پر علماء کا اتفاق و اجماع ہے۔ اور صحیح مسلم میں سیدہ جداوہ بنت وہب اسدیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

’’یہ مخفی طور پر زندہ درگور کرنا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب النکاح،باب جواز الغیلة،حدیث:1442۔)

امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو عزل کی رخصت والی حدیث کا ناسخ قرار دیا ہے جو حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ لیکن اس قسم کی مختلف احادیث کو مہمل ٹھہرانے کی بجائے قابل عمل کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ چاہئے کہ ان احادیث میں جمع و تطبیق کی صورت نکالی جائے۔ جمہور علماء کا یہی اصول ہے۔

جمہور کے نزدیک 'واد" (زندہ درگور کرنا) اہل جاہلیت کا معمول تھا اور وہ یہ کام فقر یا اندیشہ فقر کی بنا پر کرتے تھے، جیسے کہ قرآن مجید نے ذکر کیا ہے؛

﴿ وَلا تَقتُلوا أَولـٰدَكُم مِن إِملـٰقٍ نَحنُ نَرزُقُكُم وَإِيّاهُم ...﴿١٥١﴾... سورة الأنعام

’’اپنی اولادوں کو فقر کی وجہ سے قتل مت کرو، ہم تمہیں رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے۔‘‘

﴿وَلا تَقتُلوا أَولـٰدَكُم خَشيَةَ إِملـٰقٍ نَحنُ نَرزُقُهُم وَإِيّاكُم ...﴿٣١﴾...سورة الإسراء

’’اپنی اولادوں کو فقر کے ڈر سے قتل مت کرو، ہم انہیں رزو دیں گے اور تمہیں بھی دے رہے ہیں۔‘‘

سو اگر کوئی یہ کام فقر یا اندیشہ فقر کے تحت کرے تو وہ حرام کا مرتکب ہو گا، اور اگر کوئی کسی اور دینی یا دنیاوی غرض سے کرے تو دیکھا جائے گا، جیسے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں معلوم کیا، تو آپ نے ان کو معذور جانا، اور ان کی مصلھت کے پیش نظر انہیں رخصت دے دی

اور بعض اوقات کچھ چیزوں میں نفع و ضرر کے دونوں پہلو ہوتے ہیں۔ تو اگر ضرر کا پہلو غالب ہو جیسے کہ شراب اور جوئے میں ہے تو شریعت اسے حرام کہتی ہے:

﴿يَسـَٔلونَكَ عَنِ الخَمرِ وَالمَيسِرِ قُل فيهِما إِثمٌ كَبيرٌ وَمَنـٰفِعُ لِلنّاسِ وَإِثمُهُما أَكبَرُ مِن نَفعِهِما...﴿٢١٩﴾... سورةالبقرة

’’یہ لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجئے کہ ان میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے کچھ فائدے بھی ہیں، مگر ان کا گناہ ان کے نفع سے بہت بڑا ہے۔‘‘

اس صورت میں ان کے فوائد کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

اور اگر کوئی ایسی چیز ہو کہ اس میں نفع و ضرر برابر برابر ہوں تو بھی اسے حرام کہا جانا چاہئے، کیونکہ ضرر کا دور کرنا نفع حاصل کرنے کی نسبت زیادہ راجح ہوتا ہے۔ اور جہاں نفع اور فائدہ، اس کے نقصان کے مقابلے میں زیادہ ہو تو اسے مباح کہا جاتا ہے اور اکثر ادویات اسی قاعدہ کے ضمن میں آتی ہیں۔ مثلا عقاقیر (جڑی بوٹیاں) کہ ان میں کسی قدر ضرر بھی ہوتا ہے کہ یہ جگر یا گردوں پر اثر انداز ہوتی ہیں مگر ان کے دیگر فوائد غالب اور زیادہ ہوتے ہیں، بالعموم دوا کے ساتھ بیان کیے گئے ہوتے ہیں۔

تو ہمارے اس مسئلہ میں بھی یہی صورت ہے کہ مانع حمل ادویات بعض اوقات خواتین کے لیے کسی قدر نقصان دہ بھی ہوتی ہیں، لیکن اکثر اطباء کا کہنا ہے کہ یہ عوارض مثلا سر چکرانا یا متلی ہونا وغیرہ، یہ صرف ابتدا میں ہوتے ہیں، جو آہستہ آہستہ دور ہو جاتے ہیں۔ اور ان کے مقابل کچھ اور چیزیں بھی ہیں مثلا لولب، اس کے مضرات اس کے فوائد کی نسبت کہیں کم ہیں۔ بہرحال جب ان چیزوں کے فوائد زیادہ اور مضرات بہت کم اور فقتی ہوں تو ان کا استعمال کیا جا سکتا ہے

(2) ۔۔ اور دوسرا سوال کہ بچے کو قبل از وقت دودھ چھڑانے میں گناہ ہونا، اس سبب سے کہ اس کی ماں حمل سے ہے، تو یہ جائز ہے، اگرچہ بچے کو بنیادی طور پر دو سال کے لیے دودھ پلایا جانا چاہئے، جیسے کہ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے:

﴿وَالو‌ٰلِد‌ٰتُ يُرضِعنَ أَولـٰدَهُنَّ حَولَينِ كامِلَينِ لِمَن أَرادَ أَن يُتِمَّ الرَّضاعَةَ...﴿٢٣٣﴾... سورةالبقرة

’’مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال تک دودھ پلائیں، یہ اس کے لیے ہے جو رضاعت پوری کرنا چاہیں۔‘‘

اس ارشاد میں اس معاملے کو ’’ماں باپ کے چاہنے‘‘ کے ساتھ معلق اور مشروط ٹھہرایا گیا ہے، جو دلیل ہے کہ قبل از وقت دودھ چھڑانا جائز ہے۔ اور طبی طور پر بھی مسلم ہے کہ حمل سے دودھ کی غذائیت میں فرق آ جاتا ہے، کیونکہ شکم مادر میں پرورش پانے والا نیا بچہ اپنی مطلوبہ غذا کا کافی حصہ لے لیتا ہے، اگرچہ ماں کو کیلشیم اور دیگر مقویات اپنی غذا میں لینی پڑتی ہیں، مگر بچہ اس کے باوجود ماں کی ہڈیوں اور بطن سے اپنی ضروریات کشید کر لیتا ہے، اور دودھ پینے والے بچے کے دودھ کے فوائد میں بہت کمی آ جاتی ہے۔

تاہم احادیث میں وارد ہے جیسے کہ صحیح مسلم میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قریب تھا کہ میں غیلہ سے منع کر دوں (یعنی ایام رضاعت میں ماں حاملہ ہو) مگر میں نے دیکھا ہے کہ اہل فارس یہ کرتے ہیں اور ان کو کوئی ضرر نہیں ہوتا۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب النکاح،باب جواز الغیلۃ،حدیث:1442۔)

سوال: میں اپنی والدہ اور دادی کو عمرہ کے لیے لے کر آیا۔ جب ہم طواف کرنے لگے تو میں نے دیکھا کہ وہ برقعے پہنے ہوئے تھیں، تو میں نے کہا کہ یہ اتار دیں، اور پردے کی چادر چہرے پر لٹکائیں، تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: حکم یہ ہے کہ عورت جب احرام باندھے لے تو اسے برقع پہننا جائز نہیں ہے۔ آپ علیہ السلام کا عورت کے لیے یہی حکم ہے کہ (لا تنتقب المراة) (سنن النسائی،کتاب مناسک الحج،باب النھی عن ان تنتقب المراۃالحرام،حدیث:2674وسنن ابی داود،کتاب المناسک،باب مایلبس المحرم،حدیث:1825،1826،1827۔) "یعنی حالت احرام میں نقاب یا برقع نہ پہنے۔" ([1])

اور برقع نقاب سے بھی بڑا ہوتا ہے۔ لیکن اگر کسی نے جہالت سے پہن لیا ہو اور اس کا خیال تھا کہ اس میں کوئی حرج نہیں تو اس پر کچھ نہیں ہے، نہ فدیہ ہے اور نہ کوئی گناہ، اور نہ ہی عمرے میں کوئی نقص آیا ہے، کیونکہ یہ جاہل اور لاعلم تھی، اور احرام کے دوران میں دیگر پابندیوں کا یہی حکم ہے مثلا کوئی جہالت سے یا بھول کر اپنا سر منڈوا لے، یا سلا ہوا لباس پہن لے، یا خوشبو استعمال کر بیٹھے، یا کوئی دوسرا اس کو ان کاموں پر مجبور کر دے اور اسے کرنا پڑے تو ایسے شخص پر کوئی گناہ نہیں ہے اور نہ کوئی فدیہ ہے۔


[1] مگر چہرے کے پردے کے لیے سر کی چادر کو آگے لٹکائے،جیسے کہ گزشتہ صفحات میں تفصیل سے یہ مسئلہ بیان ہوا ہے کہ چہرے کا پردہ فرض واجب ہے۔(سعیدی)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 420

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ