السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت نے جو مملکت عربیہ کے جنوب میں ایک شہر میں رہائش پذیر ہے، رمضان سے تین دن پہلے اس نے عمرے کی نیت کی، احرام بھی باندھ لیا، مگر میقات پہنچنے سے پہلے اس نے اپنی نیت بدل لی، اور یہ کہا کہ میں رمضان میں عمرہ کر لوں گی۔ پھر وہ مکہ گئی مگر عمرہ اس نے رمضان ہی میں کیا اور پھر حلال ہوئی۔ کیا اس کا یہ عمل صحیح ہے؟ اور کیا یہ نیت فسخ کرنے پر کچھ لازم آتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ عمل صحیح نہیں ہے، کیونکہ انسان جب حج یا عمرے میں داخل ہو جائے تو اسے اپنا یہ عمل بغیر کسی شرعی سبب کے توڑنا حرام ہے۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
﴿وَأَتِمُّوا الحَجَّ وَالعُمرَةَ لِلَّهِ فَإِن أُحصِرتُم فَمَا استَيسَرَ مِنَ الهَدىِ...﴿١٩٦﴾... سورةالبقرة
’’حج اور عمرہ اللہ کی رضا کے لیے پورا کرو، اگر راستے میں روک لیے جاؤ تو جو قربانی میسر ہو پیش کرو۔‘‘
اسے چاہئے کہ اپنے اس قصور سے توبہ کرے، اور اس کا عمرہ صحیح ہے، خواہ اس نے اس کے فسخ کی نیت بھی کی تھی، مگر اس سے یہ فسخ نہیں ہو سکتا، اور یہ حج کے خصائص میں سے ہے، جو دوسرے اعمال میں نہیں ہے، کہ مثلا کوئی حج کو باطل کرنے کی نیت کرے تو وہ باطل نہیں ہوتا، جیسے کہ دوسری عبادتیں باطل ہو جاتی ہیں۔ مثلا روزے دار نے اپنا روزہ باطل کرنے کی نیت کی تو وہ باطل ہو جائے گا۔ نمازی اپنی نماز باطل کرنے کی نیت کرے تو باطل ہو جائے گی۔ وضو کرنے والا اپنے وضو کے دوران میں اپنے وضو کے باطل کرنے کی نیت کر لے تو وہ باطل ہو جائے گا۔ مگر عمرہ کرنے والا اپنے عمرے کے دوران میں اسے باطل کرنے کی نیت کرے، یا حاجی تلبیہ کہتے ہوئے اسے باطل کرنے کی نیت کرے تو یہ باطل نہیں ہوں گے۔ اسی لیے علماء کہتے ہیں کہ "نسک (حج و عمرہ) آدمی کے باطل کرنے سے باطل نہیں ہوتے۔" اس لیے ہم کہتے ہیں کہ اس عورت نے جس وقت عمرہ کی نیت کر لی اور احرام باندھ لیا تو عمرے کی تکمیل تک وہ احرام ہی میں رہی اور اس کے فسخ کرنے کی نیت غیر مؤثر رہی۔ اور اب یہ سوال کہ کیا اس عورت نے رمضان میں عمرہ پایا یا نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس نے رمضان میں عمرہ نہیں پایا، کیونکہ اس کا احرام رمضان سے تین دن پہلے سے تھا، اور رمضان میں عمرے والے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا احرام ابتداء سے لے کر آکر تک رمضان میں ہو۔ اس کی ایک دوسری مثال: ایک آدمی شعبان کی آخری گھڑی میں میقات پر پہنچا، اور عمرے کا احرام باندھا، اور ادھر سورج غروب ہو گیا اور رمضان شروع ہو گیا، پھر وہ حرم میں آ کر طواف، سعی اور قصر کرتا ہے، تو کیا اس نے رمضان میں عمرہ پا لیا؟
اس کا جواب بھی یہی ہے کہ اس نے رمضان میں عمرہ نہیں پایا، کیونکہ اس کی ابتداء احرام رمضان شروع ہونے سے تھی۔
اور ایک مثال: ایک آدمی نے رمضان کے آخری دن میں سورج غروب ہونے سے پہلے احرام باندھا، اور پھر عید کی رات میں طواف، سعی وغیرہ کی تو کیا اس نے رمضان میں عمرہ کیا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس نے بھی رمضان میں عمرہ نہیں کیا، کیونکہ اس نے اپنے عمرے کا ایک جز رمضان کے بعد ادا کیا ہے۔ اور رمضان میں عمرہ تبھی ہو گا جب ابتدائے احرام سے لے کر آخر تک تمام اعمال رمضان میں ہوں۔
تو اس خاتون کے لیے ہمارے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کا عمرہ صحیح ہے مگر اس نے اپنا یہ عمرہ رمضان میں نہیں پایا، اور اسے یہ بھی درست نہیں ہے کہ احرام توڑ کر واپس جائے۔ اگر یہ اسے باطل کرنے کی نیت بھی کرے گی تو یہ باطل نہیں ہو گا، خواہ یہ اپنے سلے ہوئے کپڑے بھی پہنے۔ کیونکہ یہ عورت ہے اور عورت سلے ہوئے کپڑے ہی پہنتی ہے، سو جو چاہے پہنے۔ اگر بالفرض کوئی اور ممنوعہ کام بھی کرتی ہے، تو اس پر کچھ نہیں ہے کیونکہ یہ جاہل اور لاعلم ہے۔ اور وہ انسان جو اپنی جہالت، نسیان یا اکراہ کی وجہ سے احرام کی مخالفات کا مرتکب ہو اس پر کچھ نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب