السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک نوجوان نے بلوغت سے پہلے اپنا حج کیا۔ بعد از بلوغت اس کے والد نے اس سے کہا کہ جاؤ اور اپنے دادا کی طرف سے حج کرو۔ چنانچہ بچے نے بہ نیت تمتع اپنے دادا کی طرف سے عمرے کا احرام باندھا۔ آٹھ ذوالحجہ آئی تو اسے بتایا گیا کہ تیرا پہلا حج جو تو نے بلوغت سے پہلے کیا ہے وہ نفلی تھا، تم پر واجب ہے کہ اب پہلے اپنا حج کرو، اور یہ حج تمہاری اپنی طرف سے ہو گا۔یہ بات کہاں تک درست ہے؟ یہ نوجوان متمتع ہو گا یا مفرد، کیونکہ اس نے عمرہ اپنے دادا کی طرف سے کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسے جو کچھ کہا گیا ہے وہ صحیح ہے۔ اور حدیث شبرمہ میں ایسے ہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا تھا: ’’کیا تو نے اپنی طرف سے حج کر لیا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: نہیں، تو آپ نے فرمایا: ’’اپنی طرف سے حج کرو، پھر شبرمہ کی طرف سے حج کرنا۔‘‘ (سنن ابی داود،کتاب المناسک،باب الرجل یحج عن غیرہ،حدیث:1811وسنن ابن ماجہ،کتاب المناسک،باب الحج عن المیت،حدیث:2903۔) اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس نے عمرہ کر لیا ہے یا نہیں، یہ عمرہ اس نوجوان کی اپنی طرف سے بن جائے گا۔ جز کا حکم کل والا ہوتا ہے۔
ملاحظہ: ۔۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس حدیث میں شبرمہ جن کی طرف سے حج کیا جا رہا تھا وہ بیمار اور حج سے عاجز تھے، اور انہوں نے اپنے عزیز کو وصیت کی تھی کہ ان کی طرف سے حج کرے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب