سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(552) معذور ہونے كی وجہ سے طواف افاضہ اور وداع نہ کرنا

  • 18159
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 888

سوال

(552) معذور ہونے كی وجہ سے طواف افاضہ اور وداع نہ کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے گزشتہ سال حج کیا ہے۔ اور حج کے تمام ارکان پورے کیے ہیں، سوائے طواف افاضہ اور وداع کے، کیونکہ میں شرعی طور پر معذور تھی، لہذا میں اپنے گھر مدینہ منورہ چلی آئی اور نیت یہ تھی کہ کچھ دنوں بعد آ کر طواف کر لوں گی۔ چونکہ مجھے دینی مسائل کا کچھ زیادہ علم نہیں ہے، اس لیے میں ہر چیز سے حلال ہو گئی، جو دوران احرام میں منع ہوتی ہیں۔ اور کچھ حضرات سے دوبرہ واپس جا کر طواف کرنے کا پوچھا تو انہوں نے کہا ہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے، بلکہ تو نے اپنا حج خراب کر لیا ہے، لہذا اب تجھے اگلے سال دوبارہ حج کرنا ہو گا، اور ایک گائے یا اونٹنی بھی ذبح کرنی ہو گی۔ تو کیا یہ صحیح ہے اور کیا اور مسئلہ اسی طرح ہے؟ یا اس کا کوئی اور حل بھی ہے؟ وضاحت فرمائیں کہ مجھ پر کیا واجب ہے۔ جزاکم اللہ تعالیٰ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ ایک بڑی مصیبت ہے کہ کچھ لوگ بغیر علم کے فتوے دینے لگتے ہیں۔ آپ کے ذمے یہی ہے کہ مکہ مکرمہ جائیں اور طواف افاضہ کر لیں۔ اور طواف وداع آپ کے ذمے نہیں تھا کیونکہ آپ شرعی عذر سے تھیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق حائضہ پر طواف وداع لازم نہیں ہے۔ اس حدیث میں ہے کہ:

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ (مکہ سے نکلتے ہوئے) ان کا آخری عمل بیت اللہ کا طواف ہونا چاہئے، تاہم آپ نے حائضہ عورت سے تخفیف فرمائی۔" (صحیح بخاری،کتاب الحج،باب طواف الوداع،حدیث:1755وصحیح مسلم،کتاب الحج،باب وجوب طواف الوداع وسقوطہ عن الحائض،حدیث:1327۔)

اور یہ بھی ہے کہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے متعلق آپ کو بتایا گیا کہ انہوں نے طواف افاضہ کر لیا ہے، تو آپ نے فرمایا : "پھر تو اسے روانہ ہو جانا چاہئے۔" (صحیح بخاری،کتاب الحج،باب الادلاج من المحصب،حدیث:1771وصحیح مسلم،کتاب الحج،باب وجوب طواف الوداع وسقوطہ عن الحائض،حدیث:1211۔) یہ دلیل ہے کہ حائضہ سے طواف وداع ساقط ہے۔ مگر طواف افاضہ آپ کے لیے واجب ہے۔ اور چونکہ آپ جہالت کی بنا پر پوری طرح حلال ہو گئی ہیں، تو اس کا بھی آپ کو کوئی ضرر نہیں ہے، کیونکہ انسان اگر جہالت کی بنا پر کسی ممنوع کا مرتکب ہو تو وہ معاف ہے۔ اہل ایمان کو قرآن مجید میں وارد یہ دعا سکھائی گئی ہے:

﴿رَبَّنا لا تُؤاخِذنا إِن نَسينا أَو أَخطَأنا...﴿٢٨٦﴾...سورة البقرة

’’اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا غلطی کر بیٹھے ہوں، تو ہماری پکڑ نہ کر۔‘‘

اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’میں نے قبول کیا۔‘‘

اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ہے:

﴿وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـٰكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم... ﴿٥﴾... سورةالأحزاب

’’جو بات تم سے غلطی سے ہو گئی ہو، اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں، لیکن جو تمہارے دلی قصد و ارادے سے ہو (تو اس کی پکڑ ہے)۔‘‘

الغرض تمام ممنوعات اگر کوئی احرام والا جہالت یا بھول یا کسی کے مجبور کیے جانے سے کرے، تو اس پر کچھ نہیں ہے۔ اور جب عذر دور ہو جائے تو واجب ہے کہ اس عمل سے باز آ جائے جس کا وہ مرتکب ہو رہا ہو۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر399

محدث فتویٰ

تبصرے