السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں عمرہ کی غرض سے مکہ مکرمہ گئی مگر وہاں پہنچنے کے ایک دن بعد میں سخت بیمار ہو گئی اور اعمال عمرہ پورے نہ کر سکی، البتہ بیت اللہ کے سات چکر اور اسی طرح صفا و مروہ کی سعی کر لی تھی، مگر ہمیں روضہ رسول پر مدینہ منورہ جانا ممکن نہ ہو سکا اور ہم واپس آ گئے، اس کا مجھے بہت غم اور افسوس ہے، تو کیا ہمارا یہ عمرہ کامل ہوا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ اعمال جو اس عورت نے کیے ہیں یعنی طواف اور سعی۔ اس کے لیے ایک عمل باقی ہے یعنی بالوں کا کاٹنا۔ اگر اس نے یہ تین عمل کیے ہوتے یعنی طواف، سعی اور بال کاٹنا، تب اس کا عمرہ کامل ہوتا۔
زیارت مدینہ یہ عمرہ کے تکمیلی اعمال میں سے نہیں ہے، اور نہ ہی عمرہ کے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہے۔ بلکہ زیارت مسجد نبوی ایک مستقل عمل ہے، آدمی کو جب بھی ممکن اور آسان ہو، کر لے۔ اس عورت کے عمرے میں سے جیسے کہ اس نے سوال میں بتایا ہے، ایک عمل بال کاٹنا باقی ہے۔ اور بال کاٹنے کے لیے وقت مقرر نہیں ہے۔ یہ اگر اب بھی کاٹ لے تو اس کا عمرہ پورا ہو جائے گا۔
اسی طرح اگر اس نے سعی صفا و مروہ کے فورا بعد سفر نہیں کیا تھا، بلکہ مکے میں رکی رہی تھی تو اس کے ذمے طواف وداع بھی ہے۔ اگر آدمی صفا و مروہ کی سعی اور بال کٹوانے کے فورا بعد سفر کرے تو اس پر طواف وداع نہیں ہے۔ اور صحیح قول یہی ہے کہ (اگر عمرے والا مکہ میں رکا رہا ہو تو روانگی کے وقت) اس پر طواف وداع ضروری ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عمومی فرمان ہے:
(لا ينفر أحد حتى يكون آخر عهده بالبيت)
’’کوئی شخص مکہ سے روانہ نہ ہو حتیٰ کہ اس کا آخری عمل بیت اللہ کے ساتھ ہونا چاہئے (یعنی طواف)۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الحج،باب طواف الوداع،حدیث:1755وصحیح مسلم،کتاب الحج،باب وجوب طواف الوداع وسقوطہ عن الھائض،حدیث:1327اصحیح ابن خزیمۃ:327/4،حدیث:3000۔)
اور عمرہ حج ہی کی مانند ہے، سوائے ان چیزوں کے جن کا فرق ثابت ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا تھا:
(اصنع في عمرتك ما انت صانع في حجك)
’’تو اپنے عمرے میں وہی کچھ کر جو اپنے حج میں کرتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الحج،باب غسل الخلوق ثلاث مرات من الثیاب،حدیث:1536وصحیح مسلم،کتاب الحج،باب ما یباح للمحرم بحج او عمرۃوما لا یباح،حدیث:1180وسنن النسائی،کتاب مناسک الحج،باب فی الخلوق للمحرم،حدیث:2710۔)
عمرہ گویا ایک چھوٹا حج ہے۔ جو امور حج میں واجب ہیں عمرے میں بھی واجب ہیں، سوائے ان کے جن کی دلیل ثابت ہو مثلا وقوف عرفات، رمی یا جمار یا منیٰ میں رات گزارنا۔
تو اس خاتون کے لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر یہ سعی کے فورا بعد روانہ ہو چکی تھی تو اس پر طواف وداع نہیں تھا، کیونکہ یہ عمل ہی بیت اللہ کے ساتھ اس کا آخری عمل تھا۔ لیکن اگر اس کے بعد یہ مکہ میں رکی رہی تھی تو اس نے یہ قصور کیا ہے۔ اور اس نے جو کہا ہے کہ "قبر نبی علیہ السلام کی زیارت نہیں کر سکی" یعنی اس کا ارادہ تھا کہ مدینہ منورہ جائے اور نبی علیہ السلام کی قبر کی زیارت کرے، تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ زیارت قبور کے لیے سفر کا اہتمام کرنا جائز نہیں ہے، قبریں خواہ کوئی سی ہوں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
("لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد: المسجد الحرام، ومسجد الرسول صلى الله عليه وسلم، ومسجد الأقصى.")
’’تین مسجدوں کے علاوہ کہیں کے لیے پالان نہ کسے جائیں (یعنی سفر کا اہتمام نہ کیا جائے) مسجد حرام، میری یہ مسجد (مسجد نبوی) اور مسجد اقصیٰ۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب فضل الصلاۃفی مسجد مکہ والمدینہ،باب فضل الصلاۃ فی مسجدمکۃ،حدیث:1188وسنن ابی داود،کتاب المناسک،باب فی اتیان المدینۃ،حدیث:2033۔صحیح سنن الترمذی،ابواب الصلاۃ،باب ای المساجد افضل،حدیث:326۔صحیح وسنن نسائی،کتاب المساجد،باب ما تشد الرحال الیہ من المساجد،حدیث:700صحیح ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ کی مسجد کا ذکر پہلے ہے۔دیکھیے:صحیح مسلم،کتاب الحج،باب لا تشد الرحال الا الی ثلاثۃ مساجد،حدیث:1397۔)
مقصد یہ ہے کہ عبادت کی غرض سے ان مقامات کے علاوہ اور کہیں کا سفر نہ کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے صرف یہی تین مقامات ہی مخصوص ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب