سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(528) حج افراد افضل یے یا تمتع؟

  • 18135
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 611

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کچھ لوگ کہتے ہیں حج افراد، تمتع کی نسبت زیادہ افضل ہے، کیونکہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما افراد ہی کیا کرتے تھے۔ اگر تمتع افضل ہوتا تو یہ حضرات ضرور اس سے آگاہ ہوتے۔ اس اشکال کا کیا جواب ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حج افراد جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ یہ دوسرے درجے میں ہے، ممکن ہے بعض حالات میں افضل ہو، لیکن ہم اسے کلی طور پر قران اور تمتع سے افضل کہہ دیں، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ یہ حضرات دراصل اپنے مذہب کی تائید ہی کے لیے بحث کرتے ہیں، سنت کی تائید نہیں چاہتے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج قران کیا ہے، اور خوب واضح طور پر فرمایا ہے کہ اگرچہ میں نے قران کی ہے مگر افضل تمتع ہی ہے۔ اس کی دلیل آپ علیہ السلام کا یہ فرمان ہے:

(لو استقبلت من أمري ما استدبرت لما سقت الهدي ولجعلتها عمرة)

’’اگر مجھے اپنے س معاملے کا پہلے علم ہو جاتا جو بعد میں معلوم ہوا ہے تو میں قربانی ساتھ لے کر نہ آتا اور اسے میں عمرہ بنا لیتا۔‘‘ (سنن ابی داود،کتاب المناسک،باب صفۃحج النبی صلی اللہ علیہ وسلم،حدیث:1905وسنن ابن ماجہ،کتاب المناسک،باب حجۃرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،حدیث:3074۔)

اگر یہ بات صحیح ہو کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عام حالات کے تحت حج افراد کیا ہے تو ان لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی ہے اور صحابہ کو جس کا حکم دیا ہے۔ اور یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

(دخلت العمرة في الحج إلى يوم القيامة ، و شبك بين اصابعه)

’’عمرہ قیامت کے لیے حج میں داخل ہو چکا ہے۔ اور آپ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری کے اندر ڈال کر اشارہ فرمایا۔‘‘ ([1])

ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ افراد باطل ہے، لیکن قطعی طور پر کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل نہیں ہے۔ لہذا ہم ہر حاجی کو یہی نصیحت کرتے ہیں کہ وہ تمتع کرے اور بالضرور تمتع ہی کرے۔ اگر دوسری نوع کا ارادہ ہو تو قران کرے۔ جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا کہ ذوالحلیفہ سے قربانیاں ساتھ لی تھیں۔ لیکن قربانی ساتھ لیے بغیر قران کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں درست نہیں ہے۔ سب سے واضھ فرمان تو یہی ہے جو اوپر بیان ہوا کہ: "عمرہ قیامت تک کے لیے حج میں داخل ہو چکا ہے۔۔۔" یہ ایک عام حکم تھا، اس طرح نہیں جیسے کہ بعض صحابہ سے نقل کیا گیا ہے کہ "تمتع صحابہ رسول سے خاص تھا۔" وہ یوں کہ حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا جبکہ آپ مروہ پہاڑی پر تھے، آپ نے لوگوں سے فرمایا تھا کہ"اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میں اپنی قربانی ساتھ لایا ہوں تو میں بھی تمہارے ساتھ حلال ہو جاتا ۔۔" سراقہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! ہمارا یہ تمتع کیا اس سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے ہے؟ تو آپ نے فرمایا؛ "بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے، عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہو چکا۔" (صحیح مسلم،کتاب الحج،باب حجة النبی ﷺ،حدیث:1218وسنن ابی داود،کتاب المناسک،باب فی افراد الحج،حدیث:1790ونن الترمذی،کتاب الحج،باب العمرہ اواجبة ھی ام لا،حدیث:932۔)


[1] شیخ کے ذکر کردہ یہ الفاظ صحیح ابن حبان250/9حدیث:3943میں ہیں جبکہ یہ روایت دیگر کتب احادیث میں بھی بسند موجود ہے۔دیکھیے:صحیح مسلم،کتاب الحج،باب حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم،حدیث:1218۔سنن ابی داود،کتاب المناسک،باب فی افراد الحج،حدیث:1790وسنن الترمذی،کتاب الحج،باب العمرۃاواجبۃھی ام لا،حدیث:932۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر388

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ