السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں عمرہ کے لیے جا رہی تھی، جب میرا میقات سے گزر ہوا تو میں ایام سے تھی، چنانچہ میں نے احرام نہیں باندھا، اور پھر مکہ میں اسی طرح رہی، حتیٰ کہ جب میں پاک ہو گئی تو مکہ ہی سے میں نے حرام باندھا، تو کیا میرا یہ عمل جائز تھا، یا اب مجھ پر کیا واجب ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ جائز نہیں ہے، جو عورت عمرہ کے لیے جا رہی ہو اسے حرام کے بغیر میقات سے گزرنا جائز نہیں، خواہ وہ ایام سے ہی ہو۔ اس کیفیت میں بھی اس کا احرام صحیح اور جائز ہے۔ اس کی دلیل سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کا واقعہ ہے اور یہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں۔ حج وداع کے موقعہ پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ (میقات مدینہ) میں پڑاؤ کیے ہوئے تھے تو سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے ہاں ولادت ہوئی، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پچھوایا کہ وہ کیا کریں؟ آپ نے فرمای: غسل کرے اور کپڑے سے لنگوٹ کس لے اورحرام باندھے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ،کتاب المناسک،باب النفساءوالحائض تھل بالحج،حدیث:2013۔) اور خون حیض کا حکم نفاس کا سا ہی ہے۔ تو جو عورت حیض سے ہو اور اس کا گزر میقات سے ہو اور اس کی نیت حج یا عمرہ کی ہو، ہم اسے کہتے ہیں کہ وہ غسل کرے، لنگوٹ کس لے اور احرام کی نیت کرے اور ایسی عورت بحالت احرام جب مکہ پہنچے تو بیت اللہ میں نہ جائے اور جب تک پاک نہ ہو جائے طواف نہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا، جب کہ انہیں عمرہ کے دوران میں ایام شروع ہو گئے تھے:
"تم وہی کچھ کرو جو حاجی کرتا ہے، صرف یہ ہے کہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا حتیٰ کہ پاک ہو جاؤ۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الحیض،باب تقضی الھائض المناسک کلھا الا طواف بالبیت،حدیث:305وصحیح مسلم،کتاب الحج،باب بیان وجوہ الاحرام وانہ یجوز افراد الحج،حدیث:1211۔)
اور صحیح بخاری میں اس سے مزید ہے کہ:
’’وہ جب پاک ہو گئیں تو بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کی سعی کی۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الحج،باب کیف تھل الحائض والنفساءحدیث:1556۔)
اس سے معلوم ہوا کہ عورت نے حج و عمرہ کا احرام باندھا ہو اور وہ ایام سے ہو یا طواف سے پہلے اسے ایام شروع ہو جائیں تو وہ نہ طواف کرے اور نہ صفا و مروہ کی سعی، حتیٰ کہ پاک ہو اور غسل کر لے۔ لیکن اگر عورت طواف کر چکی ہو اور طواف کے فورا ہی بعد اسے ایام شروع ہو جائیں تو اس صورت میں وہ صفا و مروہ کی سعی کر سکتی ہے، اور پھر وہ اپنے بال کٹ کر حلال ہو جائے۔ کیونکہ صفا مروہ کی سعی کے لیے طہارت شرط نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب