السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم لوگ حج کے ارادے سے یمن سے چلے، اور حج سے دس دن پہلے طائف پہنچ گئے، پھر ہمارا ارادہ ہوا کہ ہم پہلے مدینے چلے جائیں، لہذا احرام بندھے بغیر میقات سے گزر کر مدینے چلے گئے، تو کیا ہمارے اس فعل سے ہم پر کچھ لازم آتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ لوگ جو میقات سے احرام کے بغیر گزرے ہیں، اگر انہوں نے احرام کے کپڑے پہن رکھے تھے اور عمرے کا تلبیہ کہہ لیا تھا اور آگے گزر گئے تو یہ گناہ گار ہیں۔
اور یہ مسئلہ کہ ان پر دم (قربانی) لازم ہو، اس میں اختلاف ہے۔ اکثر علماء کا موقف یہی ہے کہ جب کوئی بغیر عذر شرعی کے میقات سے گزر جائے تو اس پر دم ہے (یعنی قربانی کا فدیہ ہے)۔ مگر میں شخصی طور پر اس سے مطمئن نہیں ہوں کہ حج یا عمرے کی ہر قسم کی چھوٹی بڑی غلطی پر دم کا لازم ہونا کہوں، جب تک کہ کوئی نص شرعی ثابت نہ ہو۔
جبکہ عام علماء نے اس میں توسع اختیار کیا ہے کہ اگر کوئی بندہ عمدا یا بھول کر یا جہالت سے کوئی غلطی کر جائے تو وہ اس پر دم لازم کر دیتے ہیں۔ اور ان حضرات کا استدلال حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اثر ہے، جو فی الحقیقت صحیح ہے، مگر ہمیں صحیح بخاری میں اس کے برخلاف ملتا ہے کہ ایک اعرابی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ وہ عمرے کا تلبیہ کہہ رہا تھا، جبکہ جبہ پہنے ہوئے تھا اور وہ خوشبو میں بسا ہوا تھا، تو آپ نے اسے فرمایا کہ جبہ اتار دے اور خوشبو کو اپنے سے خوب دھو اور اپنے عمرے میں وہی کچھ کر جو تو اپنے حج میں کرتا ہے۔ (صحیح بخاری،کتاب الحج،باب غسل الخلوق ثلاث مرات من الثیاب،حدیث:1536رسول اللہ ﷺنے اسے خوشبو کو تین دفعہ دھو کر ختم کرنے کا حکم دیا۔سنن النسائی،کتاب مناسک الحج،باب فی الخلوق للمحرم،حدیث:2710۔)
لہذا ہم کہتے ہیں کہ جب بندہ عمرے کی نیت کر کے میقات سے بغیر احرام کے گزر جائے تو یہ بلاشبہ گناہ کا کام ہے۔ بعض علماء تو اس پر دم کا فدیہ لازم کرتے ہیں، مگر ہم اس پر کوئی دم نہیں سمجھتے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب