السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عمرے کا شرعا کیا حکم ہے، اگر یہ واجب ہے تو اس کی کیا دلیل ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلہ میں علماء کے دو قول ہیں۔ امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ سے منقول ہے کہ عمرہ واجب ہے، اور دوسرا قول ہے کہ یہ واجب نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ یہی کہتے ہیں اور راجح بھی یہی ہے، کیونکہ اللہ عزوجل نے اپنے اس فرمان میں
﴿ وَلِلَّهِ عَلَى النّاسِ حِجُّ البَيتِ مَنِ استَطاعَ إِلَيهِ سَبيلًا ... ﴿٩٧﴾... سورة آل عمران
’’اور لوگوں پر اللہ کے لیے (حق واجب) ہے بیت اللہ کا حج کرنا، جو اس تک جانے کی طاقت رکھتا ہو۔‘‘
میں حج واجب فرمایا ہے نہ کہ عمرہ۔ البتہ (دوسرے فرمان کے بموجب) ان کا پورا کرنا واجب ہے، مگر یہ اس کے لیے ہے جو اس عمل کو شروع کر چکا ہو۔ ابتداء صرف حج ہی فرض ہے۔ نیز سب احادیث صحیحہ میں بھی وجوب حج ہی کا ذکر آیا ہے۔ اور عمرہ میں تقریبا وہی اعمال ہیں جو حج میں ہوتے ہیں، یعنی احرام باندھنا، بیت اللہ کا طواف، صفا اور مروہ کی سعی اور حلال ہونا، اور یہ سب حج میں ہوتے ہیں۔ جب بات تقریبا ایک ہی ہے تو حج کے اعمال کو اللہ نے دوبار فرض نہیں فرمایا ہے نہ دو طواف نہ دو بار سعی۔ اور طواف وداع حج کا رکن نہیں ہے نہ ہی یہ حج کا تتمہ ہے، بلکہ یہ ایک علیحدہ واجب عمل ہے، یعنی جو شخص مکہ سے روانہ ہو رہا ہو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ یہ وداعی عمل کرے۔ اسی لیے جو شخص مکہ میں مقیم ہو اس پر طواف وداع نہیں ہے۔ اس مسئلے میں یہی قول صحیح ہے۔ اور اس کا واجب ہونا اس بنیاد پر ہے کہ مکہ سے نکلتے ہوئے بندے کا آخری عمل طواف بیت اللہ ہونا چاہئے جیسے کہ مکہ میں داخل ہونے والے کے لیے بعض علمائے کرام احرام کو واجب کہتے ہیں۔ وہ (عمرہ) اسلام کے ساتھ واجب نہیں ہوتا، جیسے کہ حج واجب ہوتا ہے۔
اور وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو مکہ میں مقیم تھے انہوں نے عمرہ نہیں کیا تھا (یعنی حج کے ساتھ)، نہ نبی علیہ السلام کے زمانے میں اور نہ ہی خلفاء کے دور میں، بلکہ مکہ میں رہتے ہوئے نبی علیہ السلام کے دور میں (حج کے بعد) سوائے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اور کسی نے عمرہ نہیں کیا، اور اس کا بھی ایک سبب تھا۔[1]
[1] اس کا سبب ایام ماہواری کا آجانا تھا،دیکھیے:صحیح بخاری،کتاب الحیض،باب تقضی الحائض المناسک کلھا الاطواف بالبیت،حدیث:305۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب