سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(502) جو روزے رکھتے ہیں مگر نماز نہیں پڑھتے؟

  • 18109
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 827

سوال

(502) جو روزے رکھتے ہیں مگر نماز نہیں پڑھتے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 بعض علمائے کرام ایسے مسلمانوں پر بہت طعن کرتے ہیں جو روزے رکھتے ہیں مگر نماز نہیں پڑھتے۔ نماز کا روزے سے کیا تعلق ہے؟ میرا بھی جی چاہتا ہے کہ آخرت میں باب الریان سے گزرنے والوں کے ساتھ شامل ہوں۔ اور حدیث میں آیا ہے کہ ایک رمضان دوسرے رمضان تک مابین کے لیے کفارہ ہوتا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں گے۔ جزاکم اللہ خیرا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو لوگ آپ پر یہ عیب لگاتے ہیں کہ آپ روزے تو رکھتے ہیں لیکن نماز نہیں پڑھتے، وہ حق پر ہیں۔ کیونکہ نماز اسلام کا ستون ہے، اس کے بغیر اسلام قائم نہیں ہو سکتا، نہ قائم رہ سکتا ہے، بلکہ تارک نماز کافر ہے، ملت اسلام سے خارج ہے، اور اللہ تعالیٰ کسی کافر سے روزہ، صدقہ، حج یا دیگر اعمال صالحہ میں سے کچھ بھی قبول نہیں فرماتا ہے۔ اس کا فرمان ہے:

﴿وَما مَنَعَهُم أَن تُقبَلَ مِنهُم نَفَقـٰتُهُم إِلّا أَنَّهُم كَفَروا بِاللَّهِ وَبِرَسولِهِ وَلا يَأتونَ الصَّلو‌ٰةَ إِلّا وَهُم كُسالىٰ وَلا يُنفِقونَ إِلّا وَهُم كـٰرِهونَ ﴿٥٤﴾... سورةالبقرة

’’(اور ان منافقوں) کے خرچ (یعنی اموال) کے قبول ہونے میں کوئی چیز منع نہیں ہے سوائے س کے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا کفر کیا ہے، نماز کو آتے ہیں تو سست و کاہل ہو کر اور خرچ کرتے ہیں تو ناخوشی سے۔‘‘

لہذا اگر آپ روزے رکھتے ہیں اور نماز نہیں پڑھتے تو ہمارا کہنا بھی یہی ہے کہ آپ کے روزے سراسر باطل ہیں، ان کا آپ کو اللہ کے ہاں کوئی فائدہ نہیں ہو گا، یہ آپ کو اس کے ہاں کوئی قربت یا درجہ نہیں دلا سکتے۔ اور آپ نے جو یہ سمجھا ہے کہ ایک رمضان دوسرے رمضان تک مابین کے لیے کفارہ ہے، تو آپ نے حدیث کو کماحقہ سمجھا ہی نہیں ہے۔ آپ علیہ السلام کا کامل فرمان یوں ہے: ’’پانچ نمازیں، اور ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک، اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک، مابین کے لیے کفارہ ہوتے ہیں، جب کبائر سے اجتناب کیا جائے۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الطہارۃ،باب الصلوات الخمس الی الجمعۃ و رمضان الی رمضان،حدیث:233ومسند احمد بن حنبل:359/2،حدیث:8700۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان سے رمضان تک مابین کے لیے کفارہ ہونے کے لیے شرط یہ فرمائی ہے کہ "کبائر سے اجتناب کیا جائے۔" بھلا ترک نماز سے بڑھ کر بھی کوئی کبیرہ گناہ ہو گا؟ بلکہ ترک نماز تو کفر ہے۔ اس کے لیے کس طرح ممکن ہے کہ آپ کے روزے آپ کے لیے کفارہ بنیں۔ آپ کے روزے نامقبول ہیں، محترم بھائی! آپ کو چاہئے کہ اپنے اللہ سے توبہ کریں اور نماز جو اس نے (پہلے) فرض کی ہے اس کی پابندی کریں۔ روزے اس کے بعد ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو انہیں تلقین فرمائی تھی کہ ’’لوگوں کو تمہاری سب سے پہلے یہی دعوت ہونی چاہئے کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں ۔ اگر وہ یہ قبول کر لیں، تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر ہر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں ۔۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الزکاۃ،باب لا توخذ کرائم اموال الناس،حدیث:1389وصحیح ابن حبان:370/1،حدیث:156وصحیح مسلم،کتاب الایمان،باب الدعاءالی الشھادتین وشرائع الاسلام،حدیث:19وسنن ابی داود،کتاب الزکاة،باب فی زکاة السائمة،حدیث:1584۔) تو آپ علیہ السلام نے (شہادت توحید و رسالت کے بعد) سب سے پہلے نماز سے ابتدا فرمائی، اس کے بعد زکاۃ کا فرمان ہے۔۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 379

محدث فتویٰ

تبصرے