سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(486) حرام گفتگو سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

  • 18093
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 920

سوال

(486) حرام گفتگو سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا رمضان کے دنوں میں حرام گفتگو کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب ہم اللہ عزوجل کا یہ فرمان مبارک پڑھتے ہیں:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كُتِبَ عَلَيكُمُ الصِّيامُ كَما كُتِبَ عَلَى الَّذينَ مِن قَبلِكُم لَعَلَّكُم تَتَّقونَ ﴿١٨٣﴾... سورة البقرة

’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی و پرہیز گار بن جاؤ۔‘‘

تو ہمیں روزہ فرض کیے جانے کی حکمت معلوم ہوتی ہے، اور وہ ہے اللہ کا تقویٰ حاصل ہونا، اس کا ڈر اور اس کی عبادت کرنا، اور تقویٰ سے مراد ہی یہ ہے کہ انسان ہر طرح کے حرام کام چھوڑ دے، جس میں اوامر و احکام کا سر انجام دینا اور ممنوعات سے بچنا شامل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں ثابت ہے کہ:

’’جو بندہ جھوٹ بات نہیں چھوڑتا، جھوٹ پر عمل سے باز نہیں رہتا اور جہالت کا مرتکب ہوتا ہے، ایسے بندے کے بارے میں اللہ کو کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب بدء الوحی، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ، حدیث: 1 و صحیح مسلم، کتاب الامارۃ ، باب قولہ: انما الاعمال بالنیۃ، حدیث: 1907)

لہذا روزے دار پر لازم آتا ہے کہ ناجائز گفتگو اور حرام کاموں سے پرہیز کرے، غیبت نہ کرے، جھوٹ نہ بولے، چغلی سے پرہیز کرے، حرام خریدوفروخت بلکہ ہر طرح کے حرام سے اجتناب کرے۔ جب انسان پورا ایک ماہ ان امور کی پابندی کرے گا تو امید ہے کہ بقیہ سال کے دنوں میں بھی اس کا نفس ٹھیک رہے گا۔

لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے روزے دار اپنے روزہ دار یا بے روزہ ہونے میں کوئی فرق نہیں کرتے، ان کی عادت میں کوئی فرق نہیں آتا، پہلے کی طرح ہی وہ جھوٹ، دھوکہ اور حرام گفتگو وغیرہ کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں، انہیں اس بات کا شعور ہی نہیں ہوتا کہ انہیں اپنے روزے کا احترام بھی کرنا ہے۔ اور ان اعمال سے اگرچہ روزہ ٹوٹتا تو نہیں ہے لیکن اجروثواب ضرور کم ہو جاتا ہے، اور عین ممکن ہے کہ گناہ و ثواب کے تقابل میں روزے کا اجر بالکل ہی ضائع ہو جائے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 372

محدث فتویٰ

تبصرے