السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص کا سوال ہے کہ اس کی والدہ کی عمر تقریبا پینسٹھ برس ہو رہی ہے اور گزشتہ انیس سال سے اس کے ہاں کوئی ولادت نہیں ہوئی ہے لیکن پچھلے تین سال سے اسے مسلسل خون آنے کا عارضہ ہو گیا ہے، شاید یہ تکلیف اسی توقف کا نتیجہ ہو۔ اور اب رمضان آ رہا ہے، رمضان کے ایام میں یہ کیا کرے؟ یہ اور اس جیسی خواتین کو آپ کیا نصیحت فرمائیں گے؟ و جزاکم اللہ خیرا
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس جیسی خواتین جنہیں مسلسل خون آتا ہو (جسے کہ استحاضہ کہا جاتا ہے) اس کا حکم یہ ہے کہ ایسی عورت کو اس عارضہ کے شروع ہونے سے پہلے جو اس کی عادت تھی کہ جن ایام و تواریخ میں اسے حیض آتا تھا، اتنے دن نماز روزہ چھوڑ دے، مثلا اس کی عادت تھی کہ مہینے کے شروع میں چھ دن حیض ہوتا تھا، تو اسے اب بھی ہر مہینے اتنے دن توقف کرتے ہوئے نماز روزہ چھوڑ دینا چاہئے۔ جب یہ دن پورے ہو جائیں تو اب اسے غسل کر کے نماز روزہ شروع کر دینا چاہئے۔ اس طرح کی صورت میں عورتوں کے لیے نماز کی کیفیت یہ ہے کہ یہ اپنے زیریں جسم کو خوب دھو کر اور صاف کر کے لنگوٹ وغیرہ باندھ لیں، اور پھر وضو کریں، اور یہ وضو انہیں فرض نماز کا وقت شروع ہونے کے بعد کرنا چاہئے۔ اگر فرض نمازوں کے اوقات کے علاوہ نفل پڑھنا چاہے تو بھی اسی طرح کرے۔اس مرض اور طہارت کی مشقت کے پیش نظر اسے جائز ہے کہ ظہر و عصر، اور مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر لیا کرے، تاکہ اسے یہ محنت دو نمازوں کے لیے ایک بار کرنی پڑے، اور فجر کے لیے ایک بار کرے گی۔ یعنی پانچ بار کی بجائے اسے یہ عمل تین بار کرنا ہو گا۔
میں مسئلہ دوبارہ دہرا دوں کہ یہ عورت جب طہارت (وضو) کرنا چاہے تو اسے چاہئے کہ شرمگاہ کو دھو کر کسی کپڑے وغیرہ کا لنگوٹ باندھ لے، حتیٰ کہ خون کا نکلنا کم ہو جائے، پھر وضو کرے اور نماز پڑھے (ظہر عصر کو جمع کرتے ہوئے) ظہت کی چار رکعت اور عصر کی چار رکعت پڑھے، پھر مغرب کی تین اور عشاء کی چار رکعتیں پڑھے، اور فجر کی دو رکعتیں (فرض) پڑھے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ عورت نماز نہیں چھوڑ سکتی جیسے کہ بعض عوام سمجھتے ہیں، بلکہ دو نمازیں جمع کرے خواہ جمع قتدیم ہو یا جمع تاخیر۔ اور اگر اسی وقت میں اس وضو کے ساتھ سنتیں اور نفل پڑھنا چاہے تو بھی جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب