السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک خاتون جو پابندی سے شوال کے روزے رکھا کرتی ہے، ایک سال رمضان کی ابتدا میں اس کے ہاں بچے کی ولادت ہو گئی، جس کی وجہ سے وہ شوال میں پاک ہوئی اور رمضان کے روزوں کی قضا دینے لگی، تو کیا وہ شوال کے روزوں کی قضا بھی دے، خواہ شوال کا مہینہ گزر ہی جائے، یا اسے صرف رمضان کی قضا ہی دینی چاہئے، اور کیا شوال کے روزے ہمیشہ رکھنے لازم ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شوال کے روزے رکھنا سنت ہیں، فرض نہیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد چھ روزے شوال میں بھی رکھ لیے تو یہ گویا زمانہ بھر کے روزے ہوئے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الصوم، باب استحباب صوم ستۃ ایام من شوال، حدیث: 1164 و سنن ابی داود، کتاب الصیام، باب فی صوم ستۃ ایام من شوال، حدیث: 2433)
یہ حدیث دلیل ہے کہ ان روزوں کو مسلسل یا متفرق طور پر دونوں طرح رکھا جا سکتا ہے، کیونکہ الفاظ مطلق ہیں، تاہم جلد رکھ لینے میں فضیلت ہے، جیسے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے اعتکاف طور کے بیان میں آیا ہے کہ انہوں نے کہا تھا:
﴿ وَعَجِلتُ إِلَيكَ رَبِّ لِتَرضىٰ ﴿٨٤﴾... سورةطه
’’اور میں تیری طرف جلدی آ گیا ہوں، اے میرے رب، تاکہ تو راضی ہو۔‘‘
علاوہ ازیں اور بھی کئی آیات اور متعدد احادیث میں خیر کے معاملات میں سبقت اور جلدی کرنے کی ترغیب آئی ہے، اور ان روزوں کو ہمیشہ رکھنا کوئی واجب نہیں ہے، لیکن افضل ضرور ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہے:
’’اللہ عزوجل کے ہاں وہی عمل زیادہ محبوب ہے جس پر عمل کرنے والا ہمیشگی کرے خواہ وہ قلیل اور تھوڑا ہی ہو۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الصیا، باب صیام النبی فی غیر رمضان ۔۔، حدیث: 782 بعض روایات میں ہے: "اللہ کے رسول کے ہاں وہ عمل زیادہ محبوب ہے۔۔، دیکھیے: صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب القصد والمداومة علی العمل، حدیث: 6097۔ مسند احمد بن حنبل: 176/6، حدیث: 25478)
اور شوال کے روزوں کی قضا ماہ شوال کے گزر جانے کے بعد مشروع نہیں ہے، کیونکہ اس سنت کا وقت خاص ہے، لہذا اگر وہ کسی عذر سے چوک جائے یا بغیر عذر کے، اس کے بعد اس کی قضا نہیں ہو سکتی۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب