سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(474) بیماری کی وجہ سے چھوڑوں روزوں کی قضا کی جگہ صدقہ کرنا

  • 18081
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 785

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری والدہ بڑی عمر کی ہیں، رمضان سے کچھ پہلے بیمار ہو گئیں، اور بیماری نے انہیں بہت نڈھال کر دیا، وہ رمضان کے صرف پندرہ روزے ہی رکھ سکی ہیں، اس کے بعد انہیں روزے رکھنا بہت مشکل ہو گیا، حتیٰ کہ اب وہ قضا دینے کی طاقت بھی نہیں رکھتیں، تو کیا ان کی طرف سے صدقہ دے دینا درست ہے؟ اس غرض سے روزانہ کا کتنا صدقہ دیا جائے؟ خیال رہے کہ میں ہی ان کی کفالت کرتا ہوں۔ اگر والدہ کے پاس صدقہ کے لیے کچھ نہ ہو تو کیا میں ان کی طرف سے صدقہ دے سکتا ہوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو شخص بہت زیادہ بڑھاپے یا ایسی بیماری جس سے صحت یابی کی امید نہ ہو، کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہو، تو اس کے لیے جائز ہے کہ افطار کرے، روزہ نہ رکھے اور ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے، جیسے کہ اللہ کا فرمان ہے:

﴿وَعَلَى الَّذينَ يُطيقونَهُ فِديَةٌ طَعامُ مِسكينٍ...﴿١٨٤﴾... سورةالبقرة

’’اور جو لوگ روزہ پورا کرنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں، وہ فدیہ دے دیں، ایک مسکین کا کھانا۔‘‘

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت کریمہ بڑی عمر کے بوڑھے مرد اور عورت کے لیے رخصت کے طور پر نازل ہوئی ہے کہ جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں، وہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں۔ (صحیح بخاری، کتاب التقسیم، سورۃ البقرۃ؛ 4235 المستدرک للحاکم: 606/1، 1606، 1607)

لہذا آپ کی والدہ کے ذمے یہ ہے کہ وہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کرے، جو طعام علاقے میں معروف ہے۔ اگر وہ انتہائی مسکین ہوں نہ دے سکتی ہوں تو ان کے ذمے کچھ نہیں ہے، اور اگر آپ ان کی طرف سے کھلائیں تو یہ بہت بڑا احسان ہے اور اللہ عزوجل احسان کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 365

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ