السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک خاتون کو گزشتہ رمضان میں حمل کے باعث اپنے اکیس روزے چھوڑنے پڑ گئے، اور اب دوسرا رمضان آ گیا ہے مگر یہ اپنے سابقہ روزوں کی قضا نہیں دے سکی ہے، تو اب اس کے ذمے ان دنوں کے روزوں کی قضا ہو گی یا قضا کے ساتھ کفارہ بھی دینا ہو گا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس عورت کے ذمے صرف ان روزوں کی قضا دینا ہے، کیونکہ یہ حمل کے باعث معذور تھی۔ اور ظاہر ہے کہ اس کے ہاں رمضان کے بعد ہی ولادت ہوئی ہو گی۔ اور ایسی عورتیں جو حمل سے ہوں یا بچے کو دودھ پلا رہی ہوں، انہیں روزہ چھوڑ دینے کی رخصت ہے، جیسے کہ مسند احمد اور سنن میں روایت ہے، صحابی رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کو آدھی نماز اور حمل والی اور دودھ پلانے والی کو روزے کی رخصت دی ہے۔‘‘ (سنن ابی داود، کتاب الصیام، باب اختیار الفطر، حدیث: 2408 و سنن الترمذی، کتاب الصوم، باب الرخصة فی الافطار للحبلی والمرضع، حدیث: 715 و مسند احمد بن حنبل: 247/4، حدیث: 19069)
اور اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ اس عورت نے عذر شرعی کے بغیر روزے چھوڑے حتیٰ کہ دوسرا رمضان آ گیا تو جمہور کے نزدیک اسے ان ایام کے قضا کے ساتھ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا بھی واجب ہے، یہ قصور کوئی مرد کرے یا عورت، سب کے لیے یہی حکم ہے۔ مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور اہل ظاہر کہتے ہیں کہ اگر اس پر اگلا رمضان آ جائے اور پچھلے رمضان کے روزے نہ رکھے ہوں تو یہ اللہ کی نافرمانی ہے۔ اسے چاہئے کہ اللہ سے توبہ کرے، اپنے گناہ کی معافی مانگے اور ان ایام کی قضا دے۔ ان دنوں کے بدلے مسکینوں کو کھانا کھلانا وغیرہ واجب نہیں۔ اس طرح کھانا لازم کرنا ایک مالی جرمانہ ہے، جس کے لیے صریح نص یا اجماع ہونا چاہئے، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’کسی مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب، باب تحریم ظلم المسلم، حدیث؛ 2564 و سنن ابی داود، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، حدیث: 2882)
اور فرمایا:
’’کسی مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کا وہی مال حلال ہے جو وہ اپنے دل کی خوشی سے دے۔‘‘
الغرض کھانا کھلانے کو لازم کرنا اس کی کوئی دلیل نص یا اجماع سے ثابت نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب