السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت کہتی ہے کہ میں اپنی بلوغت کے ابتدائی سالوں میں اپنے گھر والوں کے سامنے تو روزہ رکھ لیتی تھی مگر پھر چھپ کر کھاتی پیتی رہتی تھی اور ایسا تین سال تک ہوتا رہا۔ اب شادی کے بعد میں نے توبہ کر لی ہے۔ اب اگر قضا کرنا چاہتی ہوں تو شوہر کہتا ہے کہ تمہیں صرف توبہ کافی ہے، توبہ پچھلے گناہ مٹ جاتے ہیں، اور وہ یہ بھی کہتا ہے کہ روزہ رکھ کے تو مجھے اوربچوں کو نظر انداز کرے گی، تو اب میرے لیے کیا حکم ہے؟ کیا روزے رکھوں، یا ایک سو اسی (180) مسکینوں کو کھانا کھلا دوں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس عورت نے اگر ابتداء سے روزہ شروع ہی نہیں کیا تھا، تو اسے اس کی قضا دینے کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ ایک بڑا اہم فقہی قاعدہ ہے کہ:
’’جن عبادتوں کے اوقات معین اور محدود ہیں، اگر انسان بلا عذر یہ وقت نکال دے اور وہ فریضہ ادا نہ کرے، تو بعد میں وہ اس سے قبول نہیں ہوتا۔‘‘
چنانچہ اس عورت نے ابتدا میں روزے کی نیت نہیں کی تھی تو اب اس پر قضا بھی نہیں ہے (البتہ توبہ ضرور کرے)۔ توبہ پچھلے گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔ لیکن اگر روزے کی نیت کرتی رہی ہے اور دن کے وقت میں روزہ توڑتی رہی ہے تو اس کے ذمے ہے کہ ان دنوں کی قضا دے، اور شوہر کو بھی اس سے منع کرناجائز نہیں ہے کیونکہ یہ قضا واجب ہے اور واجب کی قضا سے روکنے کا شوہر کو کوئی حق نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب