سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(462) فوت شدہ کی طرف سے روزے رکھنا

  • 18069
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1739

سوال

(462) فوت شدہ کی طرف سے روزے رکھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جس کسی مسلمان پر رمضان کے روزے ہوں، اور وہ فوت ہو جائے اور قضا نہ دے سکا ہو تو کیا کیا جائے؟ کیا اس کی طرف سے روزے رکھے جائیں یا کھانا کھلا دیا جائے؟ اور اگر یہ روزے نذر کے ہوں تو کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر کوئی شخص وفات پا جائے اور اس کے ذمے رمضان کے روزے ہوں جو وہ بیماری کے باعث نہ رکھ سکا ہو، تو وہ دو حالتوں سے خالی نہیں:

ایک حالت یہ کہ بیماری متواتر اور مسلسل رہی ہو، کہ اسے قضا دینے کا موقعہ ہی نہ ملا ہو، تو اس صورت میں اس پر کچھ نہیں ہے۔ نہ قضا دینا اور نہ کھانا کھلانا، کیونکہ وہ اپنی وفات تک معذور رہا ہے۔

دوسری حالت یہ ہے کہ اسے بیماری کے بعد صحت ہو گئی ہو، اور پھر وہ قضا نہ دے سکا حتیٰ کہ دوسرا رمضان آ گیا، اور پھر فوت ہو گیا، تو اس کے متعلق واجب ہے کہ اس کے ہر دن کے روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا جائے، کیونکہ اس نے صحت یابی کے بعد قضا دینے میں قصور کیا حتیٰ کہ دوسرا رمضان آ گیا اور پھر وفات پا گیا۔ اور یہ مسئلہ کہ آیا کوئی شخص دوسرے کی طرف سے روزے رکھ سکتا ہے یا نہیں، اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ البتہ نذر کا روزہ ہو تو وہ اس میت کی طرف سے رکھا جائے، کیونکہ آپ علیہ السلام کا فرمان ہے:

’’جو فوت ہو جائے اور اس کے ذمے روزہ ہو۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الصوم، باب من مات و علیہ صوم، حدیث: 1952 و صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب قضاء الصیام عن المیت، حدیث: 1147 و سنن ابی داود، کتاب الایمان والنذور، باب ما جاء فیمن مات وعلیہ صیام، حدیث: 3311)

اور ایک روایت ہے:

’’نذر کا روزہ فوت ہو جانے والے کی طرف سے اس کا ولی رکھے۔‘‘ ([1])


[1] نذر کا روزہ میت کی طرف سے اس کے ولی کو رکھنے کا حکم دیا۔ سنن ابی داود، کتاب الایمان والنذور، باب قضا النذر عن المیت، حدیث: 3308

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 359

محدث فتویٰ

تبصرے