السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری والدہ کی عمر ساٹھ سال ہونے کو ہے، اور جب سے ان کی میرے والد سے شادی ہوئی ہے انہوں نے اپنے ایام مخصوصہ کے روزوں کی قضا نہیں دی ہے، بلکہ میرے والد انہیں یہ کہتے رہے ہیں کہ چونکہ تو ماں ہے اور تیرے بچے ہیں، لہذا تو ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کر۔ اور اس طرح جو مدت گزری ہے وہ بیس سال ہے اور ہر رمضان کے تقریبا سات روزے فوت ہوئے ہیں۔ اب ان کے ذمے کیا ہے؟ کیا ان فوت شدہ روزوں کی قضا دیں یا صدقہ ہی کافی ہے، اور اس کی مقدار کیا ہو؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ کی والدہ کے ذمے ہے کہ جتنے رمضان کے مہینوں کے جتنے روزے ایام مخصوصہ کے مطابق فوت ہوئے ہیں، وہ یہ روزے رکھے، اور قضا کے ساتھ ہر دن کے بدلے ایک ایک مسکین کو کھانا بھی کھلائے، جس کی مقدار ہر روزے کے حساب سے آدھا صاع ہو (یعنی سوا کلو)، اور یہ طعام قضا کی تاخیر کا کفارہ ہے۔ اور اس کے لیے جائز ہے کہ اپنے حالات کے تحت یہ روزے متواتر رکھے یا متفرق، دونوں صورتیں جائز ہیں۔ اور آپ کے والد نے جو بغیر علم کے فتویٰ دیا ہے، انہوں نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب