السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مال مستفاد کی زکاۃ کیسے ادا کی جائے؟ مثلا ماہانہ ملنے والی تنخواہیں، دوسران سال حال میں ہونے والے منافع اور عطیات وغیرہ۔ کیا انہیں باقی مال کے ساتھ ملا کر سال کے آخر میں ایک ہی بار زکاۃ ادا کی جائے یا جب یہ حاصل ہوں اورنصاب کو پہنچتے ہوں تو زکاۃ دی جائے، یا باقی مال کے ساتھ ملایا جائے خواہ سال کی مدت پوری نہ بھی ہو؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلہ میں علماء کا دو قول ہیں، مگر ہمارے نزدیک راجح یہ ہے کہ آدمی کو جب بھی کوئی ایسا مال حاصل ہو تو اسے پہلے موجود مال کے نصاب کے ساتھ شامل کر لیا جائے، تو جب نصاب کا سال پورا ہونے پر آئے تو اس سب مال کی زکاۃ ادا کر دی جائے، دوران سال میں شامل ہونے والے مال کے لیے سال کا پورا ہونا شرط نہیں ہے۔ کیونکہ اگر اس کے برخلاف کیا جائے تو اس مین بڑی دقت پیش آتی ہے، اور اسلام کا قاعدہ ہے کہ:
﴿وَما جَعَلَ عَلَيكُم فِى الدّينِ مِن حَرَجٍ...﴿٧٨﴾... سورةالحج
’’اللہ نے تم پر دین کی کسی بات میں تنگی نہیں کی۔‘‘
ورنہ آدمی کے ذمے ہو گا، بالخصوص جب وہ مال دار اور تاجر ہو، کہ ہر روز یہ تفصیل لکھے کہ فلاں فلاں مال اس اس مقدار سے حاصل ہوا ہے۔ اور پھر زکاۃ کی ادائیگی کے لیے بھی اسے حساب رکھنا پڑے گا کہ اس مال پر سال پورا ہو گیا ہے اور اس پر نہیں ہوا۔ اور ظاہر ہے کہ اس میں بے پناہ مشقت اور پریشانی ہو گی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب