السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا میرے لیے جائز ہے کہ میں اپنی زکاۃ اپنے بہن بھائیوں کو دے دو جو تنگ دست ہیں، جبکہ ان کی کفالت ہمارے والد صاحب کی وفات کے بعد ہماری والدہ محترمہ کرتی ہیں؟ اور کیا یہ بھی جائز ہے کہ میں اپنی زکاۃ اپنے ان بہن بھائیوں کو دے دوں جو ایسے تنگ دست نہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس کے ضرورت مند ضرور ہیں، ویسے میں اپنی زکاۃ بالعموم اجنبی لوگوں ہی کو دیا کرتا ہوں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اجانب کی بجائے اپنے عزیز و اقارب کو زکاۃ دینا زیادہ فضیلت کا باعث ہے۔ قرابت دار کو صدقہ دینا دوہرے اجر کا باعث ہے۔ یعنی ایک صدقے کا اور دوسرے صلہ رحمی کا، بشرطیکہ یہ عزیز ایسے اقارب نہ ہوں جن پر خرچ کرنا آپ پر واجب ہے ([1]) کہ آپ ان کو زکاۃ دے کر اپنا وہ خرچ بچانا چاہیں جو آپ پر شرعا لازم ہے، تو اس صورت میں ان اقارب کو آپ کا زکاۃ دینا جائز نہیں ہو گا۔
اور اگر یہ کیفیت ہو کہ یہ بہن بھائی جن کا آپ نے ذکر کیا ہے، فقیر اور محتاج ہیں، اور آپ کا مال ان کی ضروریات کے لیے ناکافی ہے تو آپ کے لیے جائز ہے کہ اپنی زکاۃ بھی انہیں دے دیں۔ اور ایسے ہی اگر ان عزیزوں پر دوسرے لوگوں کے قرضے ہوں، اور آپ کے لیے جائز ہے کہ اپنی زکاۃ بھی انہیں دے دیں۔ اور ایسے ہی اگر ان عزیزوں پر دوسرے لوگوں کے قرضے ہوں، اور آپ اپنی زکاۃ میں سے ان کے قرض ادا کر دیں تو جائز ہے۔ کیونکہ کسی قرابت دار کے ذمے کسی طرح واجب نہیں ہے کہ وہ اپنے قرابت دار کا قرض ادا کرے۔ اس لیے اگر آپ ان کا کوئی قرض اپنی زکاۃ سے ادا کر دیں تو یہ جائز ہو گا خواہ یہ قریبی آپ کا اپنا بیٹا یا والد ہی کیوں نہ ہو، اور اس نے کسی کا قرض دینا ہو اور یہ ادائیگی کی وسعت نہ رکھتا ہو، لیکن شرط وہی ہے جو اوپر ذکر ہوئی، کہ اس طرح سے آپ ان پر کیے جانے والے اپنے لازمی شرعی اخراجات کو بچانے والے نہ ہوں۔ اور اس طرح سے آپ ان پر کیے جانے والے اپنے لازمی شرعی اخراجات کو بچانے والے نہ ہوں۔ اگر اس طرح سے آپ اپنی کوئی بچت کر رہے ہوں تو آپ کا اس کو اپنی زکاۃ دینا جائز نہ ہو گا تاکہ اس عمل کو اپنے قرابت داروں کو لازمی کفالت سے روگردانی کا ذریعہ اور بہانہ نہ بنا لیا جائے، کہ وہ پہلے قرض لے لیں اور پھر یہ ان کے (اپنی زکاۃ) سے قرض ادا کرتا پھرے۔
[1] مثلا ماں باپ، اولاد یا بیوی وغیرہ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب