سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

ناحق بدعاکے قبول ہونے کا حکم

  • 180
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1651

سوال

ناحق بدعاکے قبول ہونے کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی شخص  کسی کو ناحق بد دعا  دے تو کیا وہ قبول ہوجاتی ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ظالم کے خلاف بددعا  کرناجائز ہے لیکن کسی کے خلاف ناحق بددعا خود ظلم اور حرام فعل ہے لہذا کیسے قبول ہو سکتی ہے۔ مظلوم كے ليے جائز ہے كہ وہ بغير كسى زيادتى كے ظالم كے خلاف دعا كر سكتا ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

"برائى كےساتھ آواز بلند كرنے كو اللہ تعالى پسند نہيں فرماتا مگر مظلوم كو اجازت ہے "النساء ( 148 ).

ابن ابى حاتم نے ( 4 / 416 ) حسن سے روايت كيا ہے كہ انہوں نے فرمايا:

" مظلوم كے ليے رخصت دى گئى ہے كہ وہ ظلم كرنے والے كے خلاف دعا كر سكتا ہے ليكن شرط يہ ہے كہ دعا ميں زيادتى نہ ہو "

ديكھيں: تفسير الطبرى ( 9 / 3444 )۔

اور امام ترمذى رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تين ( اشخاص ) كى دعا بلاشك و شبہ قبول ہوتى ہے: مظلم كى دعا، اور مسافر كى دعا، اور والد كى اپنى اولاد پر "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1905 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے۔

مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

اگركوئى مسلمان شخص مجھ پر ظلم كرے تو كيا ميں اس كے خلاف بد دعا كر سكتا ہوں، اور دعا كيا ہوگىَ ؟

كميٹى كے علماء كرام كاجواب تھا:

جس شخص پر ظلم و ستم ہوا ہو تو وہ مدد و نصرت كے ليے اس كے خلاف بد دعا كر سكتا ہے، اور اس دعا ميں وہ ظالم كے خلاف دعا ميں زيادتى مت كرے۔

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اور جو شخص اپنے مظلوم ہونےكے بعد ( برابر كا ) بدلہ لے لے توا يسے لوگوں پر ( الزام كا ) كوئى راستہ نہيں } الشورى ( 43 ). انتہى

ديكھيںِ: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 24 / 262 )۔

ليكن معافى و درگزر تقوى كے زيادہ قريب ہے، اور اللہ تعالى كو زيادہ پسند ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

"اور برائى كا بدلہ اس جيسى برائى ہے، اور جو معاف كر دے اور اصلاح كر لے ا س كا اجر اللہ كےذمے ہے، يقينا اللہ سبحانہ و تعالى ظالموں سےمحبت نہيں كرتا "الشورى ( 40 ).

سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اللہ سبحانہ و تعالى نے عفو و درگزرميں اصلاح كى شرط ركھى ہے، يہ اس كى دليل ہے كہ اگر جرم كرنے والا معافى و درگزر كے لائق نہيں، اور شرعى مصلحت كا تقصاضا ہوكہ اسے سزا دينى چاہيے تو پھر اس حالت ميں يہ معافى كے حكم پر عمل نہيں ہو گا۔اور معاف كرنے والے كے ليے اجروثواب ركھنا اسے معافى پر ابھارتا ہے، اور اس كى دعوت ديتا ہے كہ مخلوق كے ساتھ وہ معاملہ كيا جائے جسے اللہ سبحانہ و تعالى پسند فرماتا ہے، جس طرح وہ يہ پسند كرتا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى اسے معاف كر دے اس طرح اسے بھى چاہيے كہ وہ دوسرے انسان كومعاف كر دے، اور جس طرح وہ پسند كرتا ہے كہ اللہ اس سے درگزر كرے اسے بھى لوگوں سے درگزر كرنى چاہيے، كيونكہ بدلہ جو جنس العمل ہوتا ہے يعنى جيسا كرنا ويسا بھرنا " انتہى

ديكھيں: تفسير السعدى ( 760 )۔

امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

’’عفو و درگزر كى بنا پر اللہ سبحانہ و تعالى بندے كى عزت ميں اضافہ كرتا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2588 ).

اور امام احمد نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم منبر پر تھے تو آپ نے فرمايا:

" رحم كرو تم پر بھى رحم كيا جائيگا، اور معاف و درگزر كرو تو اللہ تعالى بھى تمہيں بخش دےگا "

مسند احمد حديث نمبر ( 6505 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 2465 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور پھر جن افراد ميں رشتہ دارى اور دوستى و معاشرت پائى جائے ان كى آپس ميں معافى و درگزر اور بھى يقينى ہو جاتى ہے؟

 ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے