سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(386) تعزیت کرنے کا حکم

  • 17993
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 807

سوال

(386) تعزیت کرنے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تعزیت کرنے کا کیا حکم ہے؟  اور کیا تعزیت کے لیے تقریبات کا مخصوص ہالوں وغیرہ میں اہتمام کرنا جائز ہے؟ ہم امید کرتے ہیں کہ جواب مدلل ہوگا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی میت والوں کے ہاں تعزیت کے لیے جانا سنت ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ سائلہ کا مقصد ان ماتمیاور تعزیتی اجتماعات کے بارے میں پوچھنا ہے جو اس مقصد کے لیے اہتمام سے برپا کیے جاتے ہیں ([1]) ورنہ محض تعزیت اور اہل میت کو تسلی و تشفی دینا، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔

(اہتمام کے ساتھ) تعزیتی اور ماتمی اجتماعات، ان سے علمائے اہل سنت قدیم ہوں یا جدید، سب ہی نے منع کیا ہے اور ان کو بدعت کہا ہے۔ جو تفصیل چاہتا ہے اسے امام شافعی رحمہ اللہ کا قول دیکھنا چاہئے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:

میت کی تعزیت و ماتم کی خاطر اجتماع کرنے کو میں مکروہ سمجھتا ہوں، کیونکہ اس سے اہل میت کے لیے ان کا غم غلط ہونے کے بجائے اور تازہ ہوتا ہے، بلکہ ان لوگوں پر مادی بوجھ بھی پڑتا ہے۔ حالانکہ اس بارے میں ایک اثر بھی وارد ہے۔ حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’ہم لوگ (صحابہ) اہل میت کے ہاں جمع ہونے اور بعد از دفن کھانے کا اہتمام کرنے کو نیاحہ (نوحہ) میں سے شمار کرتے تھے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی النھی عن الاجتماع الی اھل المیت، حدیث: 1612 و مسند احمد بن حنبل: 2/204، حدیث: 6905)

اور نوحہ کرنا حرام ہے۔ جمہور اہل اصول اور اہل حدیث کا یہ قاعدہ ہے کہ صحابہ کا یہ کہنا کہ "ہم شمار کرتے تھے، یا ہم کیا کرتے تھے، یا ہم سمجھا کرتے تھے‘‘ وغیرہ الفاظ مرفوع حدیث کا حکم رکھتے ہیں، خواہ بیان کرنے والا اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے کی طرف نسبت کرے یا نہ کرے۔ جیسے کہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کا عورتوں کی طہارت کے سلسلے میں یہ اثر ہے کہ:

’’طہر شروع ہونے کے بعد ہم زرد پانی آنے کو یا میلے پانی کو کچھ نہ سمجھا کرتی تھیں۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الحیض، باب الصفرۃ والکدرہ فی غیر ایام الحیض، حدیث: 326 و سنن ابی داود، کتاب الطھارۃ، باب فی المراۃ تری الصفرۃ والکدرۃ بعد الطھر، حدیث: 307 و سنن النسائی، کتاب الحیض، باب الصفرۃ والکدرۃ، حدیث: 368)

جناب سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:

’’لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ نماز میں اپنی دائیں کلائی کو بائیں کلائی کے اوپر رکھا کریں۔ (صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب وضع التمنی علی الیسری فی الصلاۃ، حدیث: 740 و مسند احمد بن حنبل: 336/5، حدیث: 22900)

الغرض ماتمی اجتماعات حرام ہیں۔ اور اہل میت کو کیا کرنا چاہئے؟ اہل علم  کہتے ہیں کہ ان لوگوں کو اپنے کاروبار زندگی اور مشاغل میں مشغول ہو جانا چاہئے۔ اور انہیں تعزیت کیسے پیش کی جائے؟ اس سلسلے میں سنت یہ ہے جیسے کہ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ موتہ میں ان کے والد جعفر رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’آل جعفر کے لیے کھانا تیار کرو، انہیں ایک ایسی خبر آئی ہے جس نے انہیں مشغول کر دیا ہے۔‘‘ (سنن ابی داود، کتاب الجنائز، باب صفۃ الطعام لاھل المیت، حدیث: 3132 و سنن الترمذی، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی الطعام یصنع لاھل المیت ، حدیث: 1610)

تو سنت اسی قدر ہے جو مٹتی جا رہی ہے، اور جب بھی لوگ کوئی بدعت ایجاد کرتے ہیں تو اس کے بدلے میں ان سے کوئی نہ کوئی سنت اٹھا لی جاتی ہے۔ یہ تعزیتی و ماتمی اجتماعات بقول امام شافعی رحمہ اللہ بدعت میں شمار ہیں۔ اور امام نووی رحمہ اللہ " المجموع " میں فرماتے ہیں "اس سے باز رہیے، یہ (خیر القرون) کا قدیم کا عمل نہیں ہے، یعنی نیا اور بدعت کا ہے۔


[1] یعنی میت والے گھر میں اکٹھے ہو کر بیٹھے رہنا، دور و نزدیک سے لوگوں ک اجتماع در اجتماع آنا یا بلانا، پھر آنے والوں کے لیے کھانے وغیرہ کا اہتمام اور اسے خیرات کا نام دینا جو ہمارے ہاں تیجے، ساتویں، دسویں، بیسیوں یا چالیسویں وغیرہ کے نام سے معروف ہیں۔ (سعیدی)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 326

محدث فتویٰ

تبصرے