سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(382) مرد کا اپنی ساس کو غسل دینا

  • 17989
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-11
  • مشاہدات : 944

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مرد کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی ساس (بیوی کی ماں) کو غسل دے؟ اور وہ کون سی عورتیں ہیں جن کے لئے جائز ہے کہ مرد انہیں غسل دے سکتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واجب یہ ہے کہ اس کی بیٹی ہی اسے غسل دے۔ اور عورت کو اس کا شوہر بھی غسل دے سکتا ہے، یا اس کی محرم رشتہ دار عورتیں۔ علمائے کرام نے اس مسئلہ میں یہ ترتیب پیش کی ہے: یعنی شوہر اپنی بیوی کو غسل دے۔ اور بعض نے محرم رشتہ دار عورتیں کہا ہے کہ یہ عورتیں شوہر پر مقدم ہیں۔ اور اس کی دلیل کہ شوہر غسل دے سکتا ہے، مسند احمد اور ابن ماجہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ:

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم بقیع کی جانب سے واپس آئے، اور مجھے سر درد تھا، میں کہہ رہی تھی ہائے میرا سر!! تو آپ نے کہا: بلکہ ہائے میرا سر، تجھے کیا فکر ہے، اگر تو مجھ سے پہلے مر بھی گئی تو میں تجھے غسل دوں گا، اور کفن پہناؤں گا، تیرا جنازہ پڑھوں گا اور تجھے دفن کر دوں گا ۔۔۔ الخ‘‘ (سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب غسل الرجل امراتہ ۔۔، حدیث: 1465 و مسند احمد بن حنبل: 288/6۔، حدیث: 25950)

اور اس حدیث کی سند صحیح ہے، اور جمہور علماء کا یہی مذہب ہے۔ اس کے بعد محرم رشتہ دار عورتوں کی باری ہے، اور ان میں سے بھی بعض علماء نے ذوات الارحام عورتوں کو اولیت دی ہے، مثلا ماں، بیٹی، پوتی، بھتیجی، بہن، پھوپھی، خالہ۔ پھر ان کے بعد دوسری جو ذوات الارحام نہیں ہیں، مثلا چچا کی بیٹی، پھوپھی، زاد، خالہ زاد، پھر ان کے بعد دوسری اجنبی عورتیں۔ اور اگر شوہر نہ ہو اور محارم اور غیر محارم عورتیں بھی نہ ہوں، حتیٰ کہ اجنبی عورتیں بھی نہ ہوں تو اس صورت میں علماء سے روایات مختلف ہیں۔ بعض نے کہا کہ ایسی عورت کو تیمم کرا دیا جائے اور اس پر کفایت کی جائے، اور بعض کا خیال ہے کہ محرم مردوں کے لیے جائز ہے کہ وہ اسے غسل دے سکتے ہیں، بشرطیکہ اس پر پردہ کیا جائے، پانی اوپر سے ڈالا جائے، اور داماد غسل دے تو یہ حرام ہے جبکہ اس کی بیٹی بھی موجود ہو۔ اس صورت میں بیٹی پر واجب ہے وہی اسے غسل دے، یا دیگر قرابت دار یا کوئی اور اجنبی عورت، اگر ذوات الارحام میں سے کوئی موجود نہ ہو۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 324

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ