سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(378) عورت کا قبروں کی زیارت کرنا

  • 17985
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-12
  • مشاہدات : 757

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورت کے لیے زیارت قبور کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورتیں مردوں ہی کی جنس سے ہیں۔ جو چیز مردوں کے لیے جائز ہے وہ عورتوں کے لیے بھی جائز ہے اور جو ان کے لیے مستحب ہے وہ عورتوں کے لیے بھی مستحب ہے، سوائے اس کے جسے کسی خاص دلیل نے مستثنیٰ کر دیا ہو۔

اور زیارت قبور کے مسئلہ میں ایسی کوئی خاص دلیل نہیں ملتی ہے جو عورتوں کے لیے اس عمل کو بالخصوص حرام بتاتی ہو۔ بلکہ صحیح مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا وہ واقعہ آیا ہے، جس میں ہے کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموشی سے بستر سے نکل کر بقیع کی طرف تشریف لے گئے تاکہ اہل قبور کے لیے دعا فرمائیں، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی ان کے پیچھے پیچھے چلی گئیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہونے لگے تو یہ بھی واپس ہو لیں، جب آپ تیز چلے تو یہ بھی خوب تیز چلیں اور اپنے بستر میں آ دبکیں اور اوپر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آن پہنچے جبکہ ان کی سانسیں پھول رہی تھیں۔ آپ نے پوچھا: کیا بات ہے؟ پھر فرمایا: ’’کیا تو سمجھتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کرے گا؟ میرے پاس ابھی جبریل آئے تھے اور کہا کہ: آپ کا رب آپ کو سلام کہہ رہا ہے، اور آپ کو حکم دیتا ہے کہ بقیع کی طرف جائیں اور ان لوگوں کے لیے استغفار کریں۔‘‘

ایک روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: (تعجب ہے) اے اللہ کے رسول! میں کہاں تھی اور آپ کہاں تھے، پھر انہوں نے دریافت کیا کہ ’’میں جب قبروں کی زیارت کروں تو کیا کہا کروں؟" تو آپ نے فرمایا: ‘‘۔۔۔ یہ کہا کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الجنائز، ما یقال عند دخول القبور والدعا لاھلہ، حدیث: 974 و سنن النسائی، کتاب الجنائز، باب الامر بالاستغفار للمومنین، حدیث: 2038 صحیح)

اور حدیث " لعن الله زوارات القبور " مکی دور کی ہے، اور اس کی دلیل وہ معروف حدیث ہے " كنت نهيتكم عن زيارة القبور ألا فزوروها " اور اس میں شک نہیں کہ یہ نہی عام مدینہ منورہ میں نہ تھی، بلکہ مکہ میں تھی کیونکہ لوگ شرک سے نئے نئے نکل رہے تھے، اس لیے تصور نہیں کیا جا سکتا کہ یہ نہی مدینہ میں ہوئی ہو۔ اور آپ کا فرمان ' اى فزوروها ' ممکن ہے مکہ میں کہا گیا ہو لیکن خواہ مکہ میں کہا گیا ہو یا مدینہ میں، ہے بہرحال اس نہی کے بعد کا جو مکہ میں تھی۔ اس موقع پر مذکورہ بالا حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا (جس میں زیارت قبور کی دعا کا بیان ہے) قابل توجہ ہے۔ اگر ہم کہیں کہ حدیث ' كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا' حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کے بعد کی ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا منسوخ ہو، مگر یہ انتہائی بعید بات ہے۔

اور راجح یہ ہے کہ آپ نے مکہ میں زیارت قبور سے منع فرمایا، پھر اس مکی دور کے آخر میں یا مدنی دور کی ابتدا میں اجازت دی اور فرمایا ' ألا فزوروها ' اس تمہید کے بعد اس میں شک نہیں رہتا کہ پہلی نہی عام مردوں اور عورتوں سب کو شامل تھی، اور جب رخصت دی گئی تو بھی مردوں عورتوں کو دی گئی۔ تو یہاں دیکھنا چاہئے کہ ۔۔ ' لعن الله زوارات القبور ' والی حدیث کب کی ہے؟ اگر یہ عورتوں کو اجازت ملنے کے بعد کی ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ عورتوں کے لیے اس مسئلہ میں دو بار نسخ ہوا ۔۔ مگر منسوخہ مسائل میں ہمیں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی (کہ کوئی حکم دوبار منسوخ ہوا ہو)۔

اور بالاختصار اس بات سے قطع نظر کہ ' لعن الله زوارات القبور ' کا فرمان عورتوں کو مردوں کے ساتھ اجازت کے بعد تھا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا موقع کون سا ہے، جس میں انہوں نے اجازت طلب کی اور انہیں دے دی گئی؟ کیا یہ ' لعن الله ' کے بعد تھی یا پہلے؟

اگر کہا جائے کہ یہ اس سے پہلے تھی، اور ہمارے نزدیک یہی راجح ہے، تو ہم کہتے ہیں کہ یہ نہی خاص عورتوں کے لیے تھی، جو قبرستان بڑی کثرت سے اور بار بار جاتی ہیں۔

پھر عورتوں کے لیے زیارت قبور کو بالعموم حرام کیونکر کہا جا سکتا ہے جبکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہمیشہ اس پر عمل پیرا رہی ہیں، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی!

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 319

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ