السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں اپنے والدین کے لیے جو بالکل اَن پڑھ ہیں، قرآن کریم پڑھنا اور انہیں بخشنا چاہتا ہوں، کیا یہ میرے لیے جائز ہے؟ اور کیا کسی پڑھے لکھے کے لیے بھی قرآن پڑھ کر بخش سکتا ہے اور کیا یہ کام ایک سے زیادہ آدمیوں کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ یا آپ کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کسی سے بھی یہ ثابت نہیں کہ قرآن کریم پڑھ کر ماں باپ یا کسی دوسرے کو بخشا جا سکے۔ اللہ عزوجل نے قرآن مجید پڑھنا اس لیے مشروع فرمایا ہے کہ اس سے نفع و استفادہ حاصل کیا جائے، اس کے معانی میں غوروفکر کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿كِتـٰبٌ أَنزَلنـٰهُ إِلَيكَ مُبـٰرَكٌ لِيَدَّبَّروا ءايـٰتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُوا الأَلبـٰبِ ﴿٢٩﴾... سورةص
’’یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے، بڑی برکت والی ہے، تاکہ لوگ اس کی آیات میں غوروفکر کریں اور عقل مند اس سے نصیحت پائیں۔‘‘
اور فرمایا:
﴿إِنَّ هـٰذَا القُرءانَ يَهدى لِلَّتى هِىَ أَقوَمُ...﴿٩﴾... سورة الإسراء
’’یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو سب سے بڑھ کر سیدھا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿ قُل هُوَ لِلَّذينَ ءامَنوا هُدًى وَشِفاءٌ... ﴿٤٤﴾...سوة حم السجدة
’’کہہ دیجیے یہ قرآن اہل ایمان کے لیے ہدایت اور شفا ہے۔‘‘
اور ہمارے نبی علیہ السلام نے فرمایا ہے: ’’قرآن کریم پڑھا کرو، بلاشبہ یہ قیامت کے روز اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب فضل قراءۃ القرآن و سورۃ البقرۃ، حدیث: 804۔ السنن الکبری للبیہقی: 395/2، حدیث: 3862)
اور آپ نے فرمایا ہے کہ: ’’قیامت کے روز قرآن کریم اور قرآن والوں کو لایا جائے گا جو اس پر عمل کرتے رہے، سورہ بقرہ اور آل عمران ان کے آگے آگے ہوں گی جیسے کہ دو بدلیاں ہوں، یا پرندوں کے دو جھنڈ، یہ اپنے اہل سے دفاع کریں گی۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب فضل قراءۃ القرآن و سورۃ البقرہ، حدیث: 805 و مسند احمد بن حنبل: 183/4، حدیث: 17674)
الغرض قرآن کریم تدبر اور عمل کے لیے نازل ہوا ہے، عبادت و تلاوت کے لیے نازل ہوا ہے کہ اس کی کثرت سے تلاوت کی جائے، نہ اس لیے کہ اموات یا دوسروں کے لیے ہدیہ کیا جائے اور انہیں بخشا جائے۔ میرے علم میں قرآن و حدیث میں ایسی کوئی قابل اعتماد دلیل نہیں ہے جس سے ثابت ہوتا ہو کہ اسے ماں باپ یا دوسروں کے لیے بخشا جا سکتا ہے۔ بلکہ آپ علیہ السلام کا فرمان ہے:
’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا، جس کے متعلق ہمارا کوئی ارشاد نہ تھا تو وہ مردود ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الصلح، باب اذا اصطلحوا علی صلح جور فلصلح مردود، حدیث: 2550 و صحیح مسلم، کتاب الاقضیۃ، باب نقض الاحکام الباطلۃ، حدیث: 1718 و مسند احمد بن حنبل: 6/146، حدیث: 25171 و اسنادہ صحیح۔)
اگرچہ اہل علم کی ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ قرآن کریم پڑھ کر بخشنا جائز ہے، اس طرح اور بھی کچھ اعمال صالحہ میتوں یا دوسروں کو بخشے جا سکتے ہیں، اور وہ اسے دعا اور صدقہ پر قیاس کرتے ہیں، مگر مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں پہلا قول ہی صحیح ہے (کہ اس کا بخشنا جائز نہیں ہے)۔ کیونکہ اگر تلاوت قرآن کا ہدیہ کرنا اور بخشنا جائز ہوتا تو سلف صالحین (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام) ضرور اس پر عمل کرتے۔
اور عبادات کے مسئلہ میں قیاس کرنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ عبادت سراسر توفیقی عمل ہے، اس کے لیے قرآن کریم یا نبی علیہ السلام کی صریح نص ہونی چاہئے جیسے کہ اوپر کی حدیث میں واضح آیا ہے۔
اور یہ مسئلہ کہ میت کی طرف سے صدقہ کیا جاتا ہے، اس کے لیے دعا کی جاتی ہے، دوسرے کی طرف سے حج اور عمرہ کرنا، اور میت کے ذمے داروں کا ادا کرنا، یہ سب ایسی عبادتیں ہیں کہ ان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بالکل صحیح ہیں۔ جس کی طرف سے حج و عمرہ کیا جا رہا ہے وہ یا تو فوت ہو چکا ہو، یا انتہائی بوڑھا ہو، یا ایسا مرض ہو کہ اس کے شفایاب ہونے کی امید نہ ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب