سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(371) میت کو زندہ آدمی کی طرف سے نیک کام کا ہدیہ دینا

  • 17978
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1351

سوال

(371) میت کو زندہ آدمی کی طرف سے نیک کام کا ہدیہ دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا میت کو زندہ آدمی کی طرف سے کوئی نیک کام ہدیہ کیا جا سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(1) ہاں زندوں کی طرف سے میت کو وہ اعمال پہنچتے ہیں، جن کا شریعت میں بیان آیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جب ابن آدم فوت ہو جاتا ہے، تو اس کے سب اعمال منقطع ہو جاتے ہیں، سوائے تین کےصدقہ جاریہ، یا کوئی علم جس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہو، یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الوصیۃ، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ، حدیث: 1631۔ سنن ترمذی، کتاب الاحکام، باب فی الوقف، حدیث: 1376۔ صحیح و سنن ابی داود، کتاب الوصایا، باب فیما فی الصدقۃ عن المیت، حدیث: 2880 صحیح۔ و مسند احمد بن حنبل: 372/2، حدیث: 8831 اسنادہ صحیح۔)

علاوہ ازیں اور بھی احادیث ہیں جن میں ہے کہ صدقہ، دعا، حج، عمرہ، اور وہ علم جو مرنے والا اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہو وہ اسے پہنچتا ہے۔ لیکن نماز، قراءت قرآن، طواف اور نفلی روزوں کا میت کے لیے ہدیہ کرنا مجھے اس کی کوئی اصل معلوم نہیں ہے۔ اس لیے ان کا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ’’جو کوئی ایسا عمل کرے جس کا ہم نے حکم نہ دیا ہو، تو وہ مردود ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الصلح، باب اذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود، حدیث: 2550 و صحیح مسلم، کتاب الاقضیۃ، باب نقض الاحکام الباطلۃ، حدیث: 1718 و مسند احمد بن حنبل: 146/6، حدیث: 25171 و اسنادہ صحیح۔)

جواب: (2) وہ اعمال خیر جن کا شریعت مطہرہ میں بیان آیا ہے میت کو ہدیہ کرنا جائز ہے۔ مثلا صدقہ، دعا، قرض کی ادائیگی اور حج و عمرہ۔ جب آدمی فوت ہو گیا ہو یا زندہ بھی ہو مگر بڑھاپے کی وجہ سے (حج و عمرہ) نہ کر سکتا ہو یا ایسا بیمار ہو کہ اس کی صحت مندی کی امید نہ ہو تو اس کی طرف سے حج و عمرہ ہو سکتا ہے، کیونکہ بہت سی احادیث میں ان کا ثبوت ملتا ہے، اور قرآن کریم میں عام مسلمانوں کے لیے دعا کا ثبوت موجود ہے خواہ وہ زندہ ہوں یا فوت ہو چکے ہوں، مثلا اللہ کا یہ فرمان:

﴿وَالَّذينَ جاءو مِن بَعدِهِم يَقولونَ رَبَّنَا اغفِر لَنا وَلِإِخو‌ٰنِنَا الَّذينَ سَبَقونا بِالإيمـٰنِ وَلا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذينَ ءامَنوا رَبَّنا إِنَّكَ رَءوفٌ رَحيمٌ ﴿١٠﴾... سورةالحشر

’’اور جو ان کے بعد آئے ہیں دعا کرتے ہیں: اے رب ہمارے! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لانے میں سبقت لے چکے ہیں، اور ہمارے دلوں میں ایمان داروں کے متعلق کوئی کینہ (و حسد) نہ رہنے دے، بلاشبہ تو بے انتہا شفقت کرنے والا مہربان ہے۔‘‘

اور نبی علیہ السلام کا فرمان ہے ’’جب ابن آدم فوت ہو جاتا ہے تو سوائے تین چیزوں کے اس کے تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں: صدقہ جاریہ، علم نافع اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الوصیۃ، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ، حدیث: 1631۔ سنن ترمذی، کتاب الاحکام، باب فی الوقف، حدیث: 1376۔ صحیح و سنن ابی داود، کتاب الوصایا، باب فیما فی الصدقۃ عن المیت، حدیث: 2880 صحیح۔ و مسند احمد بن حنبل: 372/2، حدیث: 8831 اسنادہ صحیح۔)

اور یہ بھی ثابت ہے کہ ایک آدمی آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! میری ماں اچانک فوت ہو گئی ہے اور وصیت نہیں کر سکی، اور مجھے یقین ہے کہ اگر وہ بولتی تو ضرور صدقہ کرتی، تو کیا اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو اسے اجر ملے گا؟‘‘

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا میرے لیے اپنے ماں باپ کے لیے ان کے فوت ہو جانے کے بعد، حسن سلوک کا کوئی ذریعہ باقی ہے، کہ میں ان کے لیے کوئی نیکی کروں؟ فرمایا: ہاں! ان کے لیے دعا کرنا، استغفار کرنا، ان کے جانے کے بعد ان کے عہدہ (وعدہ) کو پورا کرنا، ان کے دوستوں کی عزت کرنا، اور ان عزیزوں سے صلہ رحمی کرنا کہ ماں باپ کے رشتہ کے بغیر ان کے ساتھ حسن سلوک نہ کیا جا سکتا تھا۔ (سنن ابی داود، کتاب الادب، باب فی بر الوالدین، حدیث: 5142 ضعیف و سنن ابن ماجہ، کتاب الادب، باب صل من کان ابوک یصل، حدیث: 3664 ضعیف۔ مسند احمد بن حنبل: 497/3، حدیث: 16103، اسنادہ ضعیف۔) اور اللہ تعالیٰ توفیق دینے والا ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 310

محدث فتویٰ

تبصرے