سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(367) کیا عورتیں جنازہ پڑھ سکتی ہیں؟

  • 17974
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 571

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا عورتیں کسی میت کا جنازہ پڑھ سکتی ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلمان میت کا جنازہ پڑھنا مردوں عورتوں سب کے لیے ایک شرعی حق ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

’’جو کسی جنازے میں شریک ہو حتیٰ کہ اس پر نماز پڑھی جائے تو اس کے لیے ایک  قیراط اجر ہے، اور جو اس کے ساتھ رہا حتیٰ کہ اسے دفن کیا گیا تو اس کے لیے دو قیراط ہے۔ پوچھا گیا اے اللہ کے رسول! دو قیراط سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: دو بڑے پہاڑوں کی مانند۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب من انتظر حتی تدفن، حدیث: 1261 صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب فضل الصلاۃ علی الجنازہ و اتباعھا، حدیث: 945 و سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ما جء فی ثواب من صلی علی جنازہ، حدیث: 1539 صحیح، و صحیح ابن حبان: 347/7، حدیث؛ 3078، اسنادہ صحیح)

مگر عورتوں کے لئے جنازوں کے پیچھے جانا جائز نہیں ہے، انہیں اس سے منع آئی ہے۔ صحیحین میں سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، کہتی ہیں کہ:

’’ہمیں جنازوں کے ساتھ جانے سے منع کیا گیا ہے، مگر واجب نہیں کیا گیا۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب نھی النساء عن اتباع الجنائز، حدیث: 938 و سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی اتباع النساء الجنائز، حدیث: 1577 و صحیح المعجم الکبیر للطبرانی: حدیث: 21227۔ المعجم الاوسط: 341/3،  حدیث: 3341۔)

رہا نماز جنازہ میں شریک ہونا، تو اس سے عورت کو منع نہیں کیا گیا ہے، خواہ یہ جنازہ مسجد میں ہو، یا گھر میں، یا جنازہ گاہ میں، خواتین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مسجد نبوی میں جنازوں میں شریک ہوتی تھیں، اور بعد میں بھی یہ معمول رہا ہے اور زیارت قبرستان، یہ صرف مردوں کے ساتھ خاص ہے ([1]) جیسے کہ اموات کو قبرستان لے جانا مردوں کے ساتھ خاص ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ اور اس میں حکمت، واللہ اعلم، یہ ہے کہ عورتوں کا قبرستان جانا، خود ان کے لیے یا دوسروں کے لیے فتنے کا باعث ہو سکتا ہے اور آپ علیہ السلام فرما چکے ہیں:

’’میں نے اپنے بعد عورتوں سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ہے، جو مردوں کے لیے سب سے زیادہ پریشان کن ہو۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب ما یتقی من شوم المراۃ، حدیث: 4808۔ صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب اکثر اھل الجنۃ الفقراء، حدیث: 2740 صحیح ابن حبان: 306/13، حدیث: 5967، اسنادہ صحیح۔ مسند احمد بن حنبل: 200/5، حدیث: 21794 اسنادہ صحیح۔) اور اللہ توفیق دینے والا ہے۔ (عبدالعزیز بن باز)


[1] یہ موقف محل نظر ہے۔ شیخ محمد بن عبدالمقصود حفظہ اللہ اور شیخ البانی رحمہ اللہ کے فتاوی میں جواز ثابت کیا گیا ہے جیسے کہ آگے آ رہا ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 306

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ