السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں ایک عورت للہ فی اللہ میتوں کو غسل دیا کرتی تھی، مگر اب وہ انکار کر دیتی ہے، اور کہتی ہے کہ اس سے میرے دل میں میتوں کے بارے میں سختی سی آنے لگی ہے اور رقت ختم ہو رہی ہے۔ کیا آپ اس کی اس رائے کی تائید فرمائیں گے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس خاتون کو چاہئے کہ میتوں کو غسل دینے میں اللہ سے اجروثواب کی نیت رکھے اور ثابت قدمی سے کام لے، بالخصوص جبکہ اس کی ضرورت بھی ہے، اور اس کی اس کام میں اچھی شہرت ہے اور وہ اسے بکوبی انجام دے سکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’جو شخص جب تک اپنے کسی (بہن) بھائی کی ضرورت میں اس کا مددگار ہو گا، اللہ تعالیٰ اس کی مدد میں ہو گا۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب المظالم، باب لا یظلم المسلم المسلم، حدیث: 2310 و صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظلم، حدیث: 2580 المعجم الکبیر للطبرانی: 118/5، حدیث: 4805)
صحیح مسلم میں ہے:
’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب المظالم، باب لا یظلم المسلم المسلم، حدیث: 2310 و صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظلم، حدیث: 2580 صحیح ابن حبان: 291/2، حدیث: 533 اسنادہ صحیح و مسند احمد بن حنبل: 91/2، حدیث: 5646، اسنادہ صحیح۔)
اسی معنی و مفہوم کی اور بھی بہت سی احادیث آئی ہیں۔