السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت مسجد میں آئی اور دیکھا کہ ایک خاتون پہلے سے نماز پڑھ رہی ہے، اور آنے والی کو معلوم ہے کہ یہ سنتیں پڑھ رہی ہے۔ مگر آنے والی نے اس کے پیچھے جماعت کی نیت سے فرض نماز شروع کر دی تو کیا اس فرض پڑھنے والی کی نماز صحیح ہے؟ اور کیا اس وقت نماز میں وہ بلند آواز سے قراءت کر سکتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح میں ہے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھا کرتے تھے، پھر اپنی قوم کے پاس آتے اور انہیں وہی نماز پڑھایا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری، کتاب الجماعۃ، باب اذا صلی ثم ام قوما، حدیث: 679 و صحیح مسلم، کتاب، باب القراءۃ فی العشاء، حدیث: 465 و سنن ابی داود، کتاب الصلاۃ، ابواب الامامۃ، باب امامۃ من یصلی بقول وقد صلی تلک الصلاۃ، حدیث: 599۔) یہ دارقطنی میں بھی ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی یہ نماز نفل اور مقتدی لوگوں کی فرض ہوا کرتی تھی۔ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے، اور اہل ظاہر بھی کہتے ہیں کہ نفل پڑھنے والا فرض پڑھنے والوں کی امامت کرائے تو یہ صحیح ہے۔ مگر جمہور علماء اس سے منع کرتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:
(إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ ، فَلَا تَخْتَلِفُوا عَلَيْهِ)
’’امام بنایا ہی اس لیے جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، سو اس سے اختلاف نہ کیا کرو۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب انما جعل الامام لیؤتم بہ ۔۔ حدیث 689 و صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب ائتمام الماموم بالامام، حدیث: 411 و سنن ابی داود، کتاب الصلاۃ، ابواب الامامۃ، باب الامام یصلی من قعود، حدیث: 603)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں ہمارے زیر بحث مسئلہ کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ اس میں وہ مقامات بیان فرمائے گئے ہیں کہ ان میں مقتدی کو اپنے امام کی پیروی کرنی چاہئے۔ چنانچہ اس حدیث کے اگلے الفاظ ہیں:
فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا وَإِذَا قَالَ : سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ، فَقُولُوا : رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا ، وَإِذَا صَلَّى قَاعِدًا فَصَلُّوا قُعُودًا أَجْمَعُونَ
’’امام جب اللہ اکبر کہے تب تم اللہ اکبر کہو، جب وہ رکوع کرے تب تم رکوع کرو، اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو ربنا ولک الحمد کہا کرو۔ اور جب وہ سجدہ کرے تو تم سجدہ کرو۔ اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھا کرے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھا کرو۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب انما جعل الامام لیؤتم بہ ۔۔ حدیث 689 و صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب ائتمام الماموم بالامام، حدیث: 411 و سنن ابی داود، کتاب الصلاۃ، ابواب الامامۃ، باب الامام یصلی من قعود، حدیث: 603)
اس حدیث میں علاوہ ازیں اور بھی کئی باتیں ہیں۔ الغرض اس میں حکم یہ ہے کہ مقتدی کو اپنے امام کی کامل پیروی کرنی چاہئے جو صرف ظاہری اعمال میں ہے۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ علماء کا اتفاق ہے کہ فرض پڑھنے والے کے پیچھے اگر کوئی نفل پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح مسافر امام کے پیچھے کوئی مقیم نماز پڑھے تو درست ہے۔ حالانکہ ان دونوں کی رکعات میں اختلاف ہوتا ہے۔ مسافر قصر کرتے ہوئے دو رکعت پڑھتا ہے اور مقیم اس کے پیچھے چار پڑھتا ہے۔ ([1])
[1] راقم مترجم عرض کرتا ہے کہ بلاشبہ امام اور مقتدی میں فرض اور نفل کا فرق ہو تو جماعت اور اقتداء میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے کہ شیخ صاحب موصوف نے وضاحت سے بیان فرمایا ہے۔ البتہ سوال میں جو کہا گیا ہے کہ مقتدی کو معلوم ہے کہ یہ نماز پڑھنے والا اپنی فرض نماز کی مؤکدہ سنتیں (سنن راتبہ) پڑھ رہا ہے تو ایسے آدمی کو امام بنانا اور اس کی اقتدا کرنا محل نظر ہے اور درست معلوم نہیں ہوتا۔ اگر کسی سے کسی وقت علم نہ ہونے کے باعث ایسا ہو گیا ہو تو کوئی بات نہیں۔ مگر عمدا جان بوجھ کر ایسا کرنا کسی صورت بھی جائز معلوم نہیں ہوتا۔ فرضوں اور ان کے بعد سنتوں میں یہ جماعت اور انفراد کا فرق اجماعی ہے۔ البتہ تہجد میں یا علاوہ ازیں عام نوافل میں ایسا کیا جائے تو بلاشبہ جائز اور مقبول ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی جماعت نماز تہجد میں، یا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک بار ایک شخص کو جو تاخیر سے آیا تھا جماعت کرائی تھی (ابوداؤد، ترمذی) اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا عمل بھی اوپر بیان ہوا ہے۔ اور مسائل عبادت میں عمومات سے قیاس کرنا درست نہیں سمجھا گیا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب