سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(352) عورت کا قیام اللیل میں قرآن دیکھ کر پڑھنا

  • 17959
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 763

سوال

(352) عورت کا قیام اللیل میں قرآن دیکھ کر پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری اہلیہ ایک صالحہ خاتون ہے، نماز روزے کا خوب اہتمام کرتی ہے، اور ہم اللہ کے مقابلے میں کسی کی صفائی اور پاکیزگی پیش نہیں کر سکتے، مگر علم میں بہت کمزور ہے۔ قراءت قرآن اس کی بہت ضعیف ہے۔ قیام اللیل میں قرآن مجید دیکھ کر پڑھنے اور قیام کرنے پر اصرار کرتی ہے۔ مگر قراءت میں بہت غلطیاں کرتی ہے، حروف اور کلمات تک میں تبدیلی کر جاتی ہے، مثلا ﴿أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ﴾ (التین: 95/8)میں ہمزہ چھوڑ کر پڑھ جاتی ہے ۔۔ وغیرہ، تو کیا اس صورت حال میں وہ گناہ گار ہے؟ اور کیا اس کے ذمہ دار افراد بھی اس کے گناہ میں اس کے شریک شمارہوں گے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح حدیث میں آتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ:

’’قراءت قرآن میں ماہر بندہ اللہ کے مکرم صالح اور سفیر فرشتوں کے ساتھ ہو گا، اور جو قراءت میں اتکتا ہے اس کے لیے دو اجر ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ عبس، حدیث: 4653 و صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب فضل الماھر بالقرآن والذی یتتعتع فیہ، حدیث: 798 و سنن ابی داود، کتاب سجود القرآن، ابواب فضائل القرآن، باب فی ثواب قراءۃ القرآن، حدیث: 1454)

تو یہ خاتون جب علمی طور پر پست معیار کی ہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے اور اس کے ذمہ دار سرپرست لوگوں پر بھی کوئی وبال نہیں ہے۔ تاہم آپ کو حسب امکان کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اس بات پر مطمئن ہو جائے کہ اسی قدر قراءت کرے جو اسے اچھی طرح یاد ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسئی الصلاۃ (نماز بھولنے والے اعرابی) سے فرمایا تھا کہ " ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ " پھر قرآن میں سے وہ حصہ قراءت کو جو تجھے آسان لگے اور یاد ہو۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب وجوب القراءۃ للامام والماموم، حدیث: 758 و صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ، حدیث: 397)

اسی طرح ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ ’’ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں قرآن میں سے کچھ یاد نہیں رکھ سکتا ہوں، تو آپ مجھے سکھا دیجئے جو مجھے میری نماز میں کافی ہو۔ آپ نے اس سے فرمایا: یوں کہا کر ’’ سبحان الله , والحمد لله , ولا اله إلا الله, والله اكبر , و لا حول و لا قوة الا بالله " (ابن ماجہ بروایت عبداللہ بن ابی اوفی۔ اور سند اس کی حسن ہے) (سنن ابی داود، کتاب الصلاۃ، باب ما یجزی الامی ۔۔، حدیث: 832 و مسند ابی داود، الطیالسی، ص: 109 و ضمن مسند عبداللہ بن ابی اوفی، مسند احمد بن حنبل: 4/353 و مسند عبداللہ بن ابی اوفی۔)

علاوہ ازیں اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها...﴿٢٨٦﴾... سورةالبقرة

’’اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی ہمت سے زیادہ کا مکلف نہیں ٹھہراتا ہے۔‘‘

صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جس بات پر میں نے تمہیں چھوڑا ہے مجھے اسی پر رہنے دو (زیادہ سوال اور کرید مت کیا کرو)۔ تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے کہ وہ سوال بہت زیادہ کرتے تھے اور اپنے نبیوں کی مخالفت کرتے تھے۔ تو جب میں نے تم کو کسی چیز سے منع کر دیا ہو تو اس سے باز رہو۔ اور اگر کسی چیز کا کچھ حکم دیا ہو تو جس قدر ہمت ہو اس پر عمل کیا کرو۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث: 6858 و صحیح مسلم، کتاب الحج، باب فرض الحج مرۃ فی العمر، حدیث: 1337 و سنن النسائی، کتاب مناسک الحج، باب وجوب الحج، حدیث 2619)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 297

محدث فتویٰ

تبصرے