سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(351) صلاۃ حاجت اور صلاۃ حفظ القرآن

  • 17958
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 866

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے کچھ لوگوں سے صلاۃ حاجت اور صلاۃ حفظ القرآن کے متعلق سنا ہے تو کیا فی الواقع یہ نمازیں ہیں یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ دونوں نمازیں صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہیں، نہ نماز حاجت اور نہ نماز حفظ القرآن۔ اس قسم کی عبادت کے ثابت کرنے کے لیے کوئی پختہ شرعی صحیح دلیل ہونی چاہئے۔ چنانچہ ہمیں ایسی کوئی صحیح شرعی حجت نہیں ملتی ہے اس لیے یہ غیر مشروع اور غیر مسنون ہیں۔ ([1])


[1] راقم مترجم عرض کرتا ہے کہ بلاشبہ ان ناموں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نماز ثابت نہیں ہے اور بعض لوگوں نے مختلف ناموں سے مختلف نمازیں بنا رکھی ہیں اور وہ ان کے پڑھنے پر بہت بڑے بڑے ثواب کی بشارتیں دیتے ہیں۔ مثلا نماز قضائے عمری صلوٰۃ غوثیہ وغیرہ۔ یہ سب سے اصل اور بدعاات فی الدین ہیں۔ عمومی معانی و مفاہیم کے پیش نظر اگر کوئی بندہ اپنی کسی دینی و دنیوی غرض سے اللہ کے لیے دن یا رات میں کوئی نفل پڑھے اور دعا کرے اسے کوئی خاص نام مقام متعین نہ کرے، نہ سنت رسول ثابت کرے نہ ہی اس کا ثواب مقرر متعین کرے تو اسے بدعت بھی نہیں کہا جا سکتا ہے، جیسے کہ سنن ابی داؤد کی روایت سے امام صاحب رحمہ اللہ کا رجحان معلوم ہوتا ہے:

عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ:(( كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا حَزَبَهُ أَمْرٌ صَلَّى))

’’کہ جب آپ کو اہم کام درپیش ہوتا تو آپ نماز پڑھا کرتے تھے۔‘‘

(ابو داود، باب وقت قیام النبی صلی اللہ علیہ وسلم من اللیل، حدیث: 1319)

امام ابوداود نے اس پر سکوت کیا ہے، اور ان کے قاعدہ کے مطابق یہ حدیث قابل عمل ہے۔ اگرچہ فی الحقیقت شیخ الالبانی کے کہنے کے مطابق یہ ضعیف ہے۔ (مشکوۃ المصابیح، باب صلاۃ التطوع، حدیث: 1325)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 296

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ