السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا مشہد حسین رضی اللہ عنہ میں نماز پڑھ لینا جائز ہے یعنی وہ مسجد جس میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ مدفون ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایسی مساجد جن میں قبریں بنی ہوئی ہیں، ان میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے بلکہ اس عمل کو باعث لعنت فرمایا ہے۔ چنانچہ جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی مخالفت کی ہے تو شرک میں ملوث ہو گئے ہیں۔ بخاری و مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مرض الوفات میں تھے تو آپ بے چین تھے۔ سکرات کی کیفیت سے دوچار ہونے کے باعث اپنی منقش چادر کو بار بار اپنے چہرے سے ہٹا رہے تھے۔ اس حالت میں آپ نے فرمایا:
لَعَنَ اللهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى؛ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسْجِدًا
’’اللہ یہودونصاریٰ پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے انبیاء اور صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب ما یکرہ من اتخاذ المساجد علی القبور، حدیث: 1265 و صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب النھی عن بناء المساجد علی القبور، حدیث: 529 و سنن النسائی، کتاب الجنائز، باب اتخاذ القبور مساجد، حدیث: 2047 ان روایات میں ’’(عربی)‘‘ کا لفظ ہے۔ یہ لفظ مسلم کی ایک روایت میں ہے جو اس طرح ہے ’’(عربی)‘‘ جو تم سے پہلے لوگ تھے وہ اپنے انبیاء اور دیگر نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے تھے۔ خبردار! تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا، میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ اپنی امت کو اس طرح کے کام سے ڈرا رہے تھے اور منع کر رہے تھے کہ کہیں یہ لوگ ان کی طرح نہ کرنے لگیں۔ صحیح مسلم میں حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں آپ سے آپ کی وفات سے پانچ دن پہلے سنا، آپ فرما رہے تھے:
(أَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ ! إِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ لانهم شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللهِ)
’’خبردار! جو لوگ تم سے پہلے ہو گزرے ہیں وہ اپنے بعض انبیاء اور صالحین کی قبروں کو مسجدیں اور سجدہ گاہیں بنا لیتے تھے۔ خبردار! تم لوگ قبروں کو مسجدیں نہ بنا لینا، میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں، کیونکہ وہ لوگ اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب ما یکرہ من اتخاذ المساجد علی القبور، حدیث: 1265 صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب النھی عن بناء المساجد علی القبور، حدیث: 529، سنن النسائی، کتاب الجنائز، باب اتخاذ القبور مساجد، حدیث: 2047۔ ان روایات میں ’’ صالحيهم ‘‘ کا لفظ نہیں ہے۔ یہ لفظ مسلم کی ایک روایت میں ہے جو اس طرح ہے ‘‘ وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ ! إِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ ‘‘ ’’جو تم سے پہلے لوگ تھے وہ اپنے انبیاء اور دیگر نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے تھے۔ خبردار! تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا، میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔‘‘ دیکھیے: (صحیح مسلم، کتاب المساجد و مزید صحیح ابن حبان: 334/14، حدیث: 6425 المعجم الکبیر للطبرانی: 168/2، حدیث: 1686)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب