السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا سجدہ سہو نماز میں واجب اور مسنون عمل رہ جانے کی صورت میں لازم آتا ہے یا صرف واجب عمل کے رہ جانے پر؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آدمی اگر نماز میں کوئی واجب مستحب عمل بھول گیا ہو تو سجدہ سہو واجب ہوتا ہے۔ اس بارے میں امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے جو یقینی موقف اختیار کرتے ہوئے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر کی ہے جو سنن ابی داود میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر سہو کے لیے سلام کے بعد سجدہ ہے۔‘‘ (سنن ابی داود، کتاب الصلاۃ، ابواب التشھد فی الصلاۃ، باب من نسی ان لیتشھد وھو جالس، حدیث: 1038 و مسند احمد بن حنبل: 280/5، حدیث: 22470) لیکن آپ ’’سلام کے بعد‘‘ کے الفاظ سے صرف نظر کیجیے کیونکہ سجدہ سہو کے لیے مقام و موقع کی احادیث کئی طرح سے ہیں، اور راجح یہ ہے کہ ہر حدیث جس موقع کے لیے وارد ہے اسی طرح سے اس پر عمل کیا جائے (یعنی جس بھول پر سجدہ سلام سے پہلے کیا، وہاں پہلے کیا جائے اور جس میں سلام کے بعد، وہاں سلام کے بعد)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں بھول گئے تو آپ نے سلام کے بعد سجدے کیے۔ اور اگر بھول اس طرح کی ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح سے نہ بھولے تھے، تو آپ کو دونوں اختیار ہیں کہ خواہ سلام سے پہلے سجدہ کر لیں یا سلام کے بعد۔ لیکن اگر مقتدی اپنے امام کے پیچھے کچھ بھول جائے تو جمہور علماء کہتے ہیں کہ امام اس کا متحمل ہوتا ہے (یعنی مقتدی کو سجدے کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی)، لیکن امام صنعانی کے کہنے کے مطابق جیسے کہ انہوں نے بلوغ المرام کی شرح سبل السلام میں لکھا ہے ایک گروہ علماء کا خیال ہے کہ مقتدی کو سہو کی صورت میں سجدے کرنے ہوں گے۔ اور یہ امام ابوحمد بن حزم اور کچھ شافعی علماء کا مذہب ہے اور یہ امام نووی نے المجموع میں بھی لکھا ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھولنے والے کو دو سجدے کرنے کا حکم دیا ہے۔ تو بقول ان کے جو یہ کہتا ہے کہ امام مقتدی کی بھول کا متحمل ہو جاتا ہے، اس کی دلیل پیش کرے۔ لہذا مقتدی جو کچھ بھول گیا ہو اسے چاہئے کہ امام کا انتظار کرے حتیٰ کہ جب وہ سلام پھیر لے تو یہ مقتدی اپنے سہو کے سجدے کر لے۔
جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ امام اپنے مقتدی کی بھول کا متحمل ہو جاتا ہے خواہ نماز سری ہو یا جہری، اور ان کی دلیل وہ حدیث ہے جسے عام محدثین نے کمزور کہا ہے، کیونکہ یہ عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سند سے مرسل ہے، یعنی:
(مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ) (سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ ولسنۃ فیھا، باب اذا قرا الامام فانصتوا، حدیث: 850 و مسند احمد بن حنبل: 339/3 حدیث: 14684)
’’جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس مقتدی کی قراءت ہوتی ہے۔‘‘
مگر جمہور کا مذہب یہ ہے کہ سری نمازوں میں مقتدی پر فرض ہے کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھے۔ اگر مقتدی کسی رکعت میں قراءت فاتحہ بھول گیا ہو تو اسے چاہئے کہ انتظار کرے حتیٰ کہ جب سلام پھیر لے تو یہ کھڑا ہو کر اپنی یہ رکعت دہرائے اور آخر مین دو سجدے کرے۔
اور بعض اوقات ایسا ہو سکتا ہے کہ امام انتہائی تیزی سے قراءت کرتا ہو اور مقتدی فاتحہ نہ پڑھ سکے۔ اور اگر مقتدی اطمینان سے اور ٹھہر ٹھہر کر نماز پڑھ رہا ہو تو اسے چاہئے کہ فاتحہ پڑھے، خواہ امام ایک دو ارکان میں اس سے آگے بھی بڑھ جائے، تو مقتدی کو چاہئے کہ اپنے ارکان کو خفیف کر کے امام سے مل جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب