السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے علاقہ معادی میں ایک مبلغ ہے، اس کا کہنا ہے کہ سفر یا خوف کے بغیر بھی نماز ظہر و عصر کو جمع کر کے پڑھا جا سکتا ہے۔ اس کا استدلال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ہے۔ اس وجہ سے کچھ لوگ جو اپنے محلے سے دوسرے محلے میں بھی جائیں، خواہ وہ کارکن انجنئیر قسم کے لوگ بھی کیوں نہ ہوں، نمازیں جمع کرتے ہوئے ظہر کو تاخیر سے پڑھتے ہیں۔ اورجب ان سے کہا جاتا ہے کہ یہ جائز نہیں ہے، تو وہ کہتا ہے کہ میرے پاس دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیا تھا، آپ کے پاس منع کی کیا دلیل ہے۔ براہ مہربانی ان کے قول و فعل کی تردید فرمائیے۔ ان کے اس قسم کے فتوؤں سے ہمارے ہاں ایک فتنہ سا برپا ہے، اور یہ لوگ اپنے زعم میں دلیل پر چلتے ہیں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جمع بین الصلاتین کے بارے میں عبادلہ ثلاثہ سے تین حدیثیں آئی ہیں یعنی عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم۔ صحیحین میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو نمازوں کے علاوہ کوئی نماز بے وقت نہیں پڑھی ہے۔ آپ نے مغرب اور عشاء کی نمازیں مزدلفہ میں جمع کر کے پڑھیں اور فجر کی نماز اس دناپنے وقت پر ادا کی۔" اور میں نے اپنی تالیف "صفۃ حجۃ النبی" میں بیان کیا ہے کہ علقمہ کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی مزدلفہ کی رات سوئے رہے جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے رہے اور فجر طلوع ہوتے ہی بیدار ہو گئے اور فجر کی اذان کہی گئی۔ انہوں نے بیان کیا کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نماز (فجر) اس وقت میں، صرف اسی دن، اسی جگہ، اس وقت میں ادا کرتے تھے۔" یعنی وہ بتانا یہ چاہتے ہیں کہ آپ بالعموم اس وقت میں یہ نماز نہ پڑھا کرتے تھے بلکہ کچھ تاخیر کرتے تھے۔ اور اس حدیث سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ نماز فجر کو فجر کی سفیدی میں پڑھنا زیادہ افضل ہے بجائے اس کے کہ اسے فجر کے اندھیرے (غلس) میں پڑھا جائے۔ مگر جمہور اس میں ان کے خلاف ہیں۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جو صورت بیان کی ہے، جیسے کہ طبرانی میں آیا ہے، اس سے جمع صوری مراد لی گئی ہے۔
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت جو طبرانی میں ہے، اس میں ہے کہ "نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر نکلے، آپ ظہر کو مؤخر کرتے اور عصر کو جلدی پڑھتے تھے، مغرب کو مؤخر اور عشاء کو جلدی پڑھتے تھے اور ان دونوں نمازوں کو جمع کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کو جمع کرنا کہا ہے۔ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ یہ بیان کرتے ہیں کہ آپ نے کوئی نماز بے وقت کر کے نہیں پڑھی ۔۔ تو یہ دلیل ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جو جمع بیان کی ہے اس سے "جمع صوری" مراد ہے۔ ان روایات میں ایک نکتہ یہی ہے۔
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی کسی روایت میں جمع کی کوئی صورت واضح نہیں کی گئی ہے اس لیے ان میں تین احتمالات ہیں۔ یا تو یہ جمع تقدیم ہو گی یا جمع تاخیر یا جمع صوری اور ان میں سے کوئی ایک ہی عمل میں آئی ہو گی۔ کیونکہ یہ عمل ایک ہی بار ہوا ہے، کہیں ایسا ثابت نہیں ہو سکا کہ یہ عمل متعدد بار کا ہو۔ لہذا اس میں عموم نہیں ہے۔ اس حدیث اور احادیث مواقیت میں جمع کی مناسب صورت یہی ہے کہ اسے جمع صوری پر محمول کیا جائے۔ اور حدیث جبریل میں ہے کہ جبریل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ: ان دو وقتوں کے درمیان وقت ہے۔" اور اللہ عزوجل کا فرمان بھی یہی ہے کہ
﴿ إِنَّ الصَّلوٰةَ كانَت عَلَى المُؤمِنينَ كِتـٰبًا مَوقوتًا ﴿١٠٣﴾... سورةالنساء
’’بلاشبہ نماز اہل ایمان پر اپنے وقت میں فرض کی گئی ہے۔‘‘
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جمع کا یہ فعل ہو ہمارے پیش نظر ہے، جس میں جمع کی کوئی صورت متعین نہیں ہے کہ یہ جمع تقدیم تھی یا تاخیر یا صوری ۔۔ اور احتمال سبھی کا ہے، اور حسب قاعدہ جب احتمال آ جائے تو استدلال باطل ہو جاتا ہے، بالخصوص جبکہ جمع صوری کا قول بھی وارد ہے، جو ان سابقہ احادیث کے موافق ہے، اور یہ بھی واجب ہے کہ نصوص کے درمیان جمع و تطبیق کی صورت نکالنی چاہئے تو ضروری ہے کہ یہی کہا جائے کہ یہ جمع صوری تھی۔
اس لیے کہ یہ جمع شکل و صورت میں ہے، (اور حقیقت میں ہر نماز اپنے وقت میں ادا ہوتی ہے) کیونکہ انسان جب ظہر کو اس کے آخری وقت میں پڑھے گا، تو اتنے میں عصر کا وقت شروع ہو جائے۔ اور اگر انسان نے وضو وغیرہ کرنا ہو تو اس سے فارغ ہو کر نماز عصر پڑھے گا۔ تو یہ شکل و صورت کے اعتبار سے جمع ہے اور شریعت نے بھی اسے جمع ہی کہا ہے دلیل اس کی یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے استحاضہ والی خاتون حضرت حمنہ بنت حجش رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ:
"اگر تجھے یہ طاقت ہو کہ ظہر کو مؤخر اور عصر کو جلدی کر لیا کرے تو ان دونوں کے لیے ایک غسل کر کے ظہر و عصر کو جمع کر کے پڑھ لیا کر۔ پھر مغرب کو مؤخر اور عشاء کو جلدی کر لیا کرے تو ان دونوں کے لیے غسل کر لیا کر اور انہیں جمع کر کے پڑھ لیا کر، اور پھر اس طرح کیا کر۔"
الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت و کیفیت سے نماز پڑھنے کو "جمع" سے تعبیر فرمایا ہے۔
اس پر علامہ خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ "اس میں بڑی مشقت ہے اور یہ جمع عذر والوں کے لیے ہے۔ اور بقول علامہ موصوف "نمازوں کے اوقات عام لوگ تو کیا، خاص طالب علم کے لیے بھی واضح نہیں ہوتے ہیں۔" جمہور نے ان کے اس اعتراض کا جواب یہ دیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اوقات کے ابتدا و انتہا کی خاص خاص واضح علامتیں بیان فرما دی ہیں جواز کیا تو کیا، عوام الناس کے لیے بھی مخفی نہیں ہیں۔
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث کے بارے میں یہ بھی کہتے ہیں کہ جب ان سے کہا گیا کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کیا ارادہ فرمایا تھا؟" تو انہوں نے کہا "آپ یہ چاہتے تھے کہ امت کو حرج نہ ہو (دقت نہ ہو)"۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی اس کے قریب قریب ہے: (لئلا تحرج امتى صنعت ذلك) "تاکہ میری امت کو مشقت نہ ہو، وہ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔"
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کی پیروی کیا کرتے تھے، مثلا دیکھیے حدیث حدیبیہ میں ہے، مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان بن الحکم سے بخاری اور مسند احمد میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان لوگوں کو حکم دیا کہ اپنی قربانیاں نحر کر دیں اور اپنے سر مونڈ لیں تو کوئی بھی ان میں سے اپنی جگہ سے نہ ہلا اور آپ علیہ السلام غصے میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ لوگ آپ کی پیروی کریں تو آپ کسی سے کوئی بات نہ کریں بلکہ اپنی قربانی نحر کر دیں اور پھر حجام کو بلا کر اپنے بال منڈوا لیں۔ چنانچہ آپ نے ایسے ہی کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے سب صحابہ کرام نے اپنی قربانیاں نحر کر دیں اور اپنے اپنے سر بھی منڈوا لیے۔ حتیٰ کہ بقول راوی قریب تھا کہ ہم کہیں ایک دوسرے کو قتل ہی نہ کر بیٹھیں۔ یعنی ایک دوسرے کے بال مونڈنے منڈوانے کے لیے ان کا بہت زیادہ ازدحام ہو گیا۔[1]
اسی طرح ایک دوسرا واقعہ ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں روانہ ہوئے۔ چنانچہ آپ نے روزہ رکھا، تو آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی روزہ رکھا، حتیٰ کہ جب ہم لوگ کراع الغمیم نامی منزل پر پہنچے جو مدینہ منورہ کی نواحی آبادی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ لوگوں کو روزہ رکھنا دشوار ہو رہا ہے، اور وہ آپ کے فعل و عمل کے منتظر ہیں کہ آپ کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ عصر کے بعد کا وقت تھا اور آپ اپنی سواری پر سوار تھے۔ آپ نے پانی کا پیالہ طلب فرمایا، اپنی سواری پر ہی وہ پیالہ اپنی ہتھیلی پر رکھا، جبکہ سب لوگ یہ منظر دیکھ رہے تھے اور آپ نے یہ نوش کر لیا۔ مسند احمد میں حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ "آپ کو کھانے پینے کی حاجت نہ تھی۔" مگر آپ نے یہ سب کیا کیونکہ صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کے فعل کی اقتدا کیا کرتے تھے۔
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز دو سے زیادہ بار اول وقت سے تاخیر کر کے نہیں پڑھی ہے، حتیٰ کہ آپ کی وفات ہو گئی۔ چونکہ صحابہ آپ کے فعل کی اقتداء کیا کرتے تھے، اور بعض اوقات انہیں کوئی مشقت بھی پیش آ جاتی تھی تو آپ نے ارادہ فرمایا کہ اپنے عمل سے واضح فرما دیں کہ اس مسئلے میں وسعت ہے۔ اور یہ عمل بالکل اس عمل کے مماثل ہے کہ آپ ہر نماز کے لیے وضو کیا کرتے تھے، مگر فتح مکہ کے دن آپ نے پانچوں نمازیں ایک ہی وضو سے ادا فرمائیں۔ آپ سے کہا گیا، اور یہ کہنے والے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تھے، اے اللہ کے رسول! آج آپ نے ایسا کا کیا ہے جو پہلے نہ کیا کرتے تھے؟ تو فرمایا کہ میں نے یہ عمدا کیا ہے (صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب جواز الصلوات کلھا بوضوء واحد، حدیث: 277، و سنن ابی داود، کتاب الطھارۃ، باب الرجل یصلی الصلوات بوضوء واحد، حدیث: 172 و سنن الترمذی، کتاب /ابواب الطھارۃ، باب انہ بصلی الصلوات بوضوء واحد، حدیث: 61) اور اس میں یہی ہے کہ آپ نے ایک وضو سے کئی نمازیں کے درست ہونے کا جواز واضح فرمایا۔اور یاد رہے کہ جمع بین الصلوٰتین میں جمع صوری ہونے کا قول ائمہ اربعہ اور دیگر بہت سے ائمہ سے مروی ہے، سوائے امام محمد بن سیرین اور ربیعہ بن عبدالرحمٰن کے۔
پھر یہ بھی قابل لحاظ ہے کہ یہ حضرات جو جمع حقیقی کے قائل ہیں جیسے کہ امام محمد بن سیرین، ربیعہ بن عبدالرحمٰن اور ان کے مؤیدین مثلا قفال اور ابن منذر وغیرہ، وہ اس کے لیے شرط کرتے ہیں کہ آدمی اس عمل کو اپنی عادت نہ بنائے، بلکہ واقعی طور پر کوئی مشقت ہو تو کبھی ایسا کر لے تو جائز ہے۔ مگر اس طرح سے جمع کرنے کو اپنی عادت بنا لینا اس کا سلف میں سے کوئی بھی قائل نہیں رہا ہے۔ اگر آدمی قواعد شریعت سے کسی قدر آگاہ ہے تو اس تفصیل کے پیش نظر سے اپنے طرز عمل سے باز آ جانا چاہئے۔ (محمد بن عبدالمقصود)
[1] اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صلح کے اس فیصلے پر پریشان تھے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے چارا نہ تھا۔ (مترجم)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب