السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا مسجد میں اس طرح سے سودا کرنا جائز ہے کہ مال وصول کر لیا جائے اور قیمت بعد میں مسجد سے باہر جا کر ادا کی جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نہیں یہ درست نہیں، بدعت ہے۔ اگرچہ اس طرح کا سودا ایک جائز بیع ہے کہ آپ ادھار قیمت پر چیز خریدیں یا بیچیں۔ مگر مسجد میں ایسا کرنا منع ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"جب تم دیکھو کہ کوئی مسجد میں بیچتا یا خریدتا ہے تو کہو، اللہ تیری تجارت کو نفع والی نہ بنائے، اور اگر کسی کو سنو کہ مسجد کے اندر اپنی گم شدہ چیز کا اعلان کر رہا ہے تو کہو، اللہ اسے تجھے نہ لوٹائے۔‘‘ (سنن الترمذی، کتاب البیوع، باب النھی عن البیع فی المسجد، حدیث: 1321 و سنن الدارمی: 326/1 و صحیح ابن خزیمۃ: 274/2، حدیث: 572)
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن صحیح اور ابن حزم نے صحیح کہا ہے۔ اور عام حالات میں کسی مسلمان کو بددعا دینا جائز نہیں ہے۔
ان ارشادات کی بنا پر امام ابن حزم رحمہ اللہ مسجد میں خریدوفروخت کے حرام ہونے کے قائل ہیں، اور دیگر علمائے کرام مکروہ کہتے ہیں۔ اور اصول فقہ میں یہ قاعدہ تکرار کے ساتھ آیا ہے کہ ’’نہی حرمت کا تقاضا کرتی ہے۔‘‘ مگر اس مسئلہ میں جمہور کی دلیل اجماع ہے جیسے کہ حافظ عراقی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ مسجد میں بیع ہو جاتی ہے، اسے توڑنا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ اس اجماع کی بناء پر وہ کہتے ہیں کہ حدیث میں جو ممانعت آئی ہے وہ تنزیہ کے لیے ہے، تحریم کے لیے نہیں۔ اس منع کے بارے میں مسند احمد اور سنن میں جناب عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ عبداللہ بن عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں خریدوفروخت سے منع فرمایا ہے، اور اس سے بھی کہ اس میں شعر پڑھے جائیں یا گم شدہ چیزوں کا اعلان کیا جائے، اور اس سے بھی کہ جمعہ کے روز مسجد میں حلقے بنا کر بیٹھا جائے۔‘‘ (سنن ابی داود، کتاب الصلاۃ، باب التحلق یوم الجمعۃ قبل الصلاۃ، حدیث: 1079 و سنن الترمذی، کتاب الصلاۃ، باب کراھیۃ البیع ولشراء وانشار الضالۃ والشعر فی المسجد، حدیث: 322 و سنن النسائی، کتاب المساجد، باب النھی عن البیع ولشراء فی المسجد، حدیث: 715) یہ حدیث حسن درجہ کی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب