سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(327) بغیر کی عذر کے نمازوں کو جمع کرنا

  • 17934
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 572

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

احادیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے بغیر کسی سفر یا بارش وغیرہ کے عذر کے ظہر اور مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھی تھیں۔ ایسا کب کیا جا سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ حدیث ایسے نہیں ہے جیسے کہ اکثر طلبہ حدیث سمجھتے ہیں کہ وہاں کوئی سبب نہ تھا۔ ضروری ہے کہ ایک مسلمان حالت اقامت میں اپنے شہر میں نمازیں اپنے اپنے وقت پر ادا کرے، اور ایسا کرنا واجب ہے۔ ہاں جب کوئی عذر یا مشقت درپیش ہو تو اس مشقت کو دور کرنے کے لیے اس کی اجازت ہے کہ نمازیں جمع کر لی جائیں، جمع تقدیم یا جمع تاخیر۔

اس جمع میں شرعی سبب یہی ہے کہ مسلمانوں سے مشقت کا ازالہ کیا جائے۔ اور جہاں کوئی مشقت نہ ہو، وہاں نمازیں جمع نہیں کی جا سکتی ہیں۔ ضروری ہے کہ پوری حدیث پر عمل ہو۔ اور اس حدیث کا تتمہ یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کیا ارادہ کیا تھا؟ فرمایا کہ آپ نے چاہا کہ آپ کی امت کو مشقت نہ ہو۔ (یعنی جمع صوری اختیار کرے۔

چونکہ آپ علیہ السلام نے اقامت میں جو بارش کے عذر کے بغیر نماز پڑھی ہے تو امت کے لیے رفع جرم (مشقت دور کرنے) کی غرض سے پڑھی ہے۔ لہذا اگر کوئی عام واضح نہ ہو، مگر کسی شخص کے لیے شخصی طور پر کوئی عذر ہو تو اس کے لیے یہ ہے کہ ہر نماز کو اپنے اپنے وقت میں پڑھ لے۔ بلاوجہ جمع کرنے کا اسے حق نہیں ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 279

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ