السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
احادیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے بغیر کسی سفر یا بارش وغیرہ کے عذر کے ظہر اور مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھی تھیں۔ ایسا کب کیا جا سکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ حدیث ایسے نہیں ہے جیسے کہ اکثر طلبہ حدیث سمجھتے ہیں کہ وہاں کوئی سبب نہ تھا۔ ضروری ہے کہ ایک مسلمان حالت اقامت میں اپنے شہر میں نمازیں اپنے اپنے وقت پر ادا کرے، اور ایسا کرنا واجب ہے۔ ہاں جب کوئی عذر یا مشقت درپیش ہو تو اس مشقت کو دور کرنے کے لیے اس کی اجازت ہے کہ نمازیں جمع کر لی جائیں، جمع تقدیم یا جمع تاخیر۔
اس جمع میں شرعی سبب یہی ہے کہ مسلمانوں سے مشقت کا ازالہ کیا جائے۔ اور جہاں کوئی مشقت نہ ہو، وہاں نمازیں جمع نہیں کی جا سکتی ہیں۔ ضروری ہے کہ پوری حدیث پر عمل ہو۔ اور اس حدیث کا تتمہ یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کیا ارادہ کیا تھا؟ فرمایا کہ آپ نے چاہا کہ آپ کی امت کو مشقت نہ ہو۔ (یعنی جمع صوری اختیار کرے۔
چونکہ آپ علیہ السلام نے اقامت میں جو بارش کے عذر کے بغیر نماز پڑھی ہے تو امت کے لیے رفع جرم (مشقت دور کرنے) کی غرض سے پڑھی ہے۔ لہذا اگر کوئی عام واضح نہ ہو، مگر کسی شخص کے لیے شخصی طور پر کوئی عذر ہو تو اس کے لیے یہ ہے کہ ہر نماز کو اپنے اپنے وقت میں پڑھ لے۔ بلاوجہ جمع کرنے کا اسے حق نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب