سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(326) تشہد میں ’’ السلام علیک ایہا النبی‘‘کہنے سے کچھ لوگوں کی تذلیل

  • 17933
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1990

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز میں تشہد کے دوران " السلام عليك ايها النبى " کہناہوتا ہے۔ کیا اس میں ان لوگوں کے لیے دلیل نہیں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدد کے لیے پکارتے اور آپ سے استغاثہ کرتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نہیں، اس میں ان لوگوں کے لیے قطعا کوئی دلیل نہیں ہے۔ بالخصوص ہم سلفیوں پر اس کا کوئی اعتراض نہیں آتا ہے۔ ([1])

سنن نسائی اور دارمی کی صحیح حدیث ہے:

(عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( إن لله ملائكة سياحين في الأرض يبلغوني من أمتي السلام) (رواہ النسائی، والدارمی: 191/1 و سندہ صحیح و صححہ الحاکم: 550/1 ووافقہ الذھبی، ماخوذ از مشکوۃ المصابیح بتعلیق العلامۃ الابانی: 291/1)

اور یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ہر جگہ خطاب سنوانے کے لیے نہیں ہوتا ہے، جیسے کہ جامع ترمذی میں نیا چاند دیکھنے کی دعائیں صیغہ خطاب آیا ہے۔

(عَنْ طَلْحَةَ بنِ عُبْيدِ اللَّهِ رضِيَ اللَّه عَنْهُ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم كانَ إِذا رَأَى الهِلالَ قَالَ: « اللَّهُمَّ أَهِلَّهُ علَيْنَا بِالأَمْنِ والإِيمَانِ ، وَالسَّلامَةِ والإِسْلامِ ، رَبِّي ورَبُّكَ اللَّه) (قال ابو عیسی ھذا حدیث حسن غریب، کتاب الدعوات، حدیث: 3451)

’’اے اللہ اس نئے چاندکو ہمارے لیے برکت، ایمان، سلامتی اور اسلام والا بنا، میرا اور تیرا رب اللہ  ہے‘‘

الغرض بدعتی لوگوں کے بقول سلام میں صیغہ خطاب سے آپ علیہ السلام کا حاضر و ناظر ہونا یا آپ کا براہ راست اس سلام یا استغاثہ وغیرہ کو سننا بے اصل ہے۔ ان لوگوں کو علم ہونا چاہئے کہ سلام کا یہ صیغہ صحابہ کرام کی ایک جماعت نے آپ کی وفات کے بعد غیب کے صیغہ سے پڑھنا شروع کر دیا تھا، یعنی (السلام على النبى ورحمة لله) (ملاحظہ ہو: صحیح بخاری، کتاب الاستئذان، باب الاخذ بالید، حدیث: 6225، فتح الباری، کتاب الاذان، باب التشھد فی الآخرۃ، حدیث: 831)

ذرا غور کیجیے کہ ہم اپنی نسبت سلف (صحابہ) کی طرف کیوں کرتے اور اپنے آپ کو سلفی کیوں کہلاتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہوتے چلے گئے۔ اور اس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی بھی فرمائی تھی کہ میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی، سوائے ایک کے باقی سب جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ نے پوچھا: وہ ’’کون سا فرقہ ہو گا؟‘‘ فرمایا: ’’وہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہوں گے۔‘‘  اور ایک صحیح روایت میں یہ لفظ بھی ہیں کہ وہ ’’الجماعت ہو گی۔‘‘

اور یہ سب فرقے جن کے جہنمی ہونے کا آپ نے بتایا ہے، یہ نہیں کہ وہ کتاب و سنت سے کلی طور پر بری ہوں گے، بلکہ ان کی مثال تو ایسے ہے جیسے کسی شاعر نے کہا ہے:

وكل يدعي وصلاً بليلى

 وليلى لا تقر له بذاك

’’ہر ایک لیلیٰ سے وصل کا مدعی ہے مگر لیلیٰ ان میں سے کسی کے لیے بھی اس کا اقرار نہیں کرتی ہے۔‘‘ (دیوان الحبایۃ: 1/1)

تو سچا ان میں سے صرف وہی ہے جس پر اس حدیث کے الفاظ راست آئیں، جس میں آپ نے ناجی فرقے کے متعلق فرمایا ہے کہ "یہ فرقہ وہ ہو گا جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔" آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ "صرف میں ہوں۔" بلکہ آپ نے اس کے ساتھ اپنے صحابہ کو بھی شامل فرمایا ہے۔ تو یہ عطف و شراکت کیوں ہے؟ کیا یہ کافی نہ تھا کہ سنت پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دے دی جاتی؟ میرے عقیدہ کے مطابق اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ اور خلفائے راشدین کا ذکر کرنا اس لیے ہے کہ کوئی مسئلہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب انور پر وحی نہ کیا گیا ہو (تو اسے صحابہ اور خلفائے راشدین کے فہم اور ان کے عمل سے اخذ کیا جائے) اور یہ بات اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں فرمائی گئی ہے:

﴿وَمَن يُشاقِقِ الرَّسولَ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدىٰ وَيَتَّبِع غَيرَ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّىٰ وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ وَساءَت مَصيرًا ﴿١١٥﴾...سورة النساء

’’جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے ہم اسے ادھر ہی متوجہ کر دیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہوا اور دوزخ میں ڈال دیں گے۔ وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔‘‘

ہر فرقہ اس بات کا مدعی ہے کہ وہ کتاب و سنت پر عامل ہے۔ مگر ان کے مابین شدید اختلاف کے ہوتے ہوئے ان کو کتاب و سنت پر کیونکر تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ ناممکن ہے کہ آپس کا اختلاف قرآن مجید سے ماخوذ ہو۔ ہر وہ جو کتاب و سنت پر ہونے کا مدعی ہے اس پر لازم ہے کہ اپنے دعویٰ کی دلیل پیش کرے اور اس کی یہ دلیل اولین مومنین کی راہ میں ہو سکتی ہے۔


[1] یہ صیغہ خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور اشارہ کردہ ہے اور کلمہ تعبد ہے۔ ہم اسے اسی طرح ادا کرنے کے مکلف ہیں بغیر اس عقیدہ کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سن رہے ہیں یا آپ کو سنوایا جا رہا ہے۔ یہ تو نمازی کا استحضار ذہنی ہے کہ آپ کے ذریعے اور واسطے سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی عبادت کرنے کی تعلیم دی ہے اور آپ ہمارے لیے اللہ کے ہاں قرب کا اولین و آخرین واسطہ ہیں۔ آپ کے لیے امت کے افراد جہاں سے بھی درود و سلام بھیجتے ہیں وہ فرشتوں کے ذریعے سے آپ تک پہنچایا جا رہا ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 277

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ