سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(322) جلسہ استراحت کا حکم

  • 17929
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 834

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جلسہ استراحت کا کیا حکم ہے؟ جب امام اس پر عمل نہ کرتا ہو تو کیا مقتدی کو اس کی مخالفت کرتے ہوئے اس کے لیے بیٹھنا چاہئے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جلسہ استراحت سنت ہے (یعنی دوسری اور چوتھی رکعت کے لیے اٹھتے ہوئے دوسرے سجدے کے بعد تھوڑا سا بیٹھنا) اس مسئلہ میں امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تالیف ’’زاد المعاد‘‘ میں جو بحث کی ہے اس سے کسی قسم کا دھوکہ نہ کھایا جائے۔ وہ اس کے متعلق کہہ گئے ہیں کہ

’’یہ بیٹھنا ضرورت کے تحت تھا، لوگوں کے لیے سنت و شریعت نہ تھا۔‘‘ (زاد المعاد: 241/1)

امام صاحب موصوف کا یہ قول صحیح بخاری وغیرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح ثابت شدہ عمل کے برخلاف ہے۔ (اس بارے میں صحیح بخاری کی روایت کتاب الاذان، باب من استوی قاعدا فی وتر من صلاتہ لم تھض، حدیث: 823 کے تحت موجود ہے۔)

حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا جبکہ وہ بیٹھے ہوئے تھے، کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھ کر دکھاؤں؟ صحابہ نے کہا: تم اسے ہم سے زیادہ تو نہیں جانتے ہو۔ حضرت ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں نہیں۔ انہوں نے کہا: تو پیش کرو، چنانچہ سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھ کر دکھائی ۔۔۔ اور جب وہ دوسرے سجدے سے اٹھنے لگے تو تھوڑا سا بیٹھے یعنی جلسہ اسراحت کیا ۔۔ اس کے بعد اٹھے ۔۔ اور بقیہ نماز تفصیل سے پیش کی۔ چنانچہ دوسرے صحابہ کا جواب تھا ’’ صدقت ‘‘ (تو نے سچ کہا ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ایسے ہی تھی۔‘‘ (سنن الترمذی، کتاب الصلاۃ، باب فی وصف الصلاۃ، حدیث: 304 و سنن ابی داود، کتاب الصلاۃ، باب افتتاح الصلاۃ، حدیث: 730، و سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ، باب اتمام الصلاۃ، حدیث: 1061)

امام ابن قیم رحمہ اللہ یا بعض دوسرے حضرات سات صدیوں بعد اس میں علت نکالنے لگے ہیں، جبکہ سیدنا ابوحمید ساعدی اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم وہی کچھ پیش کرتے ہیں جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشاہدہ فرمایا تھا، اور وہ ان حقائق سے بخوبی آگاہ تھے۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل آپ کے بڑی عمر یا فربہ ہو جانے کی وجہ سے تھا تو یہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر چھپا نہ رہتا، وہ ضرور اس بات کو سمجھ جاتے۔

امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ المجموع شرح المهذب ‘‘ میں اسی سنت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’چاہئے کہ اس سنت کی پابندی کی جائے کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔‘‘ (المجموع: 443/3)

اور جب کوئی امام جلسہ استراحت نہ کرتا ہو، تو مقتدی کو اپنے امام کی پیروی کرنی چاہئے، کیونکہ امام کی پیروی نماز کے واجبات میں سے ہے۔ آپ علیہ السلام کا فرمان ہے:

إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا، وإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا وإذا قال: سمع الله لمن حمده، فقولوا: ربنا ولك الحمد، وإذا سجد فاسجدوا واذا صلى قائما فصلوا قياما واذا صلى جالسا فصلوا جلوسا اجمعين

’’امام اسی لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم اللہ اکبر کہو، جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو، اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم کہو ’’ ربنا ولك الحمد‘‘جب وہ سجدہ کرے تو تم سجدہ کرو، اور جب وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو، اور جب وہ بیٹھ کر پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر پڑھو۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب انما جعل الامام لیوتم بہ، حدیث: 689، بروایت انس بن مالک رضی اللہ عنہ و صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب ائتمام الماموم بالامام، حدیث: 411،414 بروایت ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ۔)

اس حدیث میں یہ بیان ہے کہ امام کی اقتداء لازمی اور ضروری ہے، خواہ اگر وہ کوئی رکن مثلا قیام چھوڑ دے (تو مقتدی کو وہ چھوڑنا ہو گا)۔ ([1])


[1] بلاشبہ امام کی اقتداء نماز کے واجبات میں سے ہے۔ مگر بیان کردہ حدیث ہی میں اس متابعت کی تفصیل بتا دی گئی ہے کہ تکبیر کہنے، رکوع میں جانے، رکوع سے اٹھنے وغیرہ میں امام سے سبقت نہیں کی جا سکتی، یہ حرام ااور کبیرہ گناہ ہے، جیسے کہ صحیح مسلم میں صراحت ہے ’’(عربی)‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب تحریم سبق الامام برکوع او سجود و نحوھا، حدیث: 961-112-427 ۔ لیکن جن سنتوں کا امام تارک ہو اور مقتدی کے لیے امام پر سبقت کیے بغیر ان کو عمل میں لانا آسان اور ممکن ہو تو اسے ضروری کرنی چاہئیں، مثلا امام رفع الیدین نہ کرتا ہو یا سینے پر ہاتھ نہ باندھتا ہو یا آمین نہ کہتا ہو یا سجدہ میں جانے کے لیے وہ اپنے گھٹنے پہلے رکھنے کا قائل ہو ۔۔ اور ایسے ہی جلسہ استراحت ہے تو ان متواتر سنتوں پر عمل کرنا مقتدی کے لیے انتہائی آسان ہوتا ہے اور امام پر کسی قسم کی سبقت بھی نہیں ہوتی ہے۔

یہ ضرور ہے کہ اگر امام کوئی واجب یا رکن وغیرہ چھوڑ دے تو مقتدی اس پر اضافہ نہیں کر سکتا ہے۔ مثلا وہ بھول جائے یا درمیانی تشہد یا ایک رکعت چھوڑ دے، یاد دلایا جائے مگر وہ اپنی یاد پر اعتماد کرتے ہوئے یاد دہانی قبول نہ کرے تو مقتدی کو امام کی اقتداء واجب ہو گی۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 273

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ